ColumnZameer Afaqi

الحمرا تہذیب و ثقافت کا گہورہ بن پائے گا؟ ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

الحمرا ہماری تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے۔ 10دسمبر 1949ء کو وجود پذیر ہونے کے بعد اس نے مختلف ادوار دیکھے۔1970کی دہائی میں حکومت کی جامع ثقافتی پالیسی کے تحت حکومتِ پنجاب کی تحویل میں آیا اور 1983میں پنجاب آرٹس کونسل کی ڈویژنل شاخ بنا۔ حکومت نے اسے تعمیر و تشکیل اور کارکردگی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا ثقافتی ادارہ بنایا اور بین الاقوامی شناخت دی اور گذشتہ 50برسوں میں ملک گیر شہرت اور اہمیت کا کوئی ایسا فنکار، مصور، موسیقار، گلوکار یا تخلیق کار ایسا نہیں جس نے براہ راست یا بالواسطہ الحمرا سے فیض حاصل نہ کیا ہو۔ پاکستان کے ثقافتی دارالخلافے لاہور کو اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کلچرل کمپلیکس تکمیلی مراحل کو پہنچاجس کا ڈیزائن معروف ماہر تعمیرات نیئر علی دادا نے تیار کیا۔
یہاں فیروز نظامی کی سربراہی میں موسیقی کی کلاسز کو سٹریم لائن کیا گیا اور کونسل کے اوپن ایئر تھیٹر کے پروگراموں میں جہاں کلاسیکل اساتذہ ہوتے وہاں موجودہ وقت کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہوئے گلوکار اور گلوکارائیں الحمرا کی سٹیج سے اپنی سریلی اور مدھر آوازوں کا جادو جگاتے۔مہاراج غلام حسین کتھک کی راہنمائی اور سربراہی میں جہاں کلاسیکی رقص، خاص طور پر کتھک اور لوک رقصوں کی تربیت دی گئی وہاں ایک ٹروپے بھی تشکیل دیا گیا جس کے موضوعات میں انسانی شعور کی بیداری پر خصوصی توجہ دی گئی اس ٹروپے نے سفری تھیٹر کی طرح مختلف جگہوں پر پرفارم کیا۔ان شعبوں کی کلاسیں معمول کے مطابق جاری رہتی ہیں اب تک سینکڑوں مصوروں کے بنائے ہوئے شاہکاروں کے فن پارے الحمرا آرٹس کونسل کے ہال کی زینت بن چکے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ سلسلہ جاری رہتا ہے فن کے قدردان اور ناقدین بڑے ہی انہماک سے ان نمائشوں کا انتظار کرتے اور بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔نئے مصوروں کی بھی باقاعدگی سے نمائشیں منعقد کرکے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
مذہب کو ثقافت کا اہم جزو سمجھنے کے باعث مذہبی ثقافتی لگائو کا بھی دل کھول کر اظہار ہوتا ہے، مختلف اہم مواقعوں، تہواروں پر حسن قرأت، نعت اور قوالیوں کے پروگرام منظم اور احسن طریقے سے یہاں پیش کیے جاتے رہے ہیں۔بچوں کی مصوری کی کلاسوں پر یہاں خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے، گاہے ان کی چنیدہ تصاویر کی نمائشیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ قومی موضوعات (قومی دنوں کے حوالے سے)مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں یہ سلسلہ دامے درمے سخنے جاری وساری ہے ۔عزیز اثری اور جمیل بسمل کی کاوشوں سے ’’چلڈرن تھیٹر‘‘ کا قیام بھی محدود عرصے کیلئے یہاں جاری رہا۔ الحمرا آرٹس کونسل میں اب تک سینکڑو ں مختلف نوعیت کے سرکاری اور غیرسرکاری سیمینارز، کانفرنسیں،ثقافتی شو، رقص و موسیقی کے پروگرام،ادبی اور سرکاری اجلاس، طارق عزیز شو(نیلام گھر)،اشتہارات کی بین الاقوامی کانفرنس ایکسپو89 ،ٹیبلوز، نعتیہ مشاعرے اور دیگر تقریبات اور سرگرمیاں منعقد ہو چکے ہیں۔
لیکن کووڈ کے بعد اورآفیسران کی نامناسب اور ناگہانی تبدیلوں کی وجہ سے یہاں سرگرمیاں کچھ ماند پڑیں ۔فن و ثقافت کا فروغ کسی بھی ملک اور معاشرے کے آگے بڑھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لاہور آرٹس کونسل کئی دہائیوں سے ادب وثقافت کی آبیاری کررہا ہے ، پاکستان اور پنجاب کی روایات اور کلچراور تہذیب و تمدن کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔
اس وقت ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل ذولفقار علی زلفی جو کافی عرصہ سے الحمرا میں اپنی خدمات سرانجام دینے والے تجربہ کار اور ادب و ثقافت کا بھی تجربہ رکھنے والے ہیں ۔ذوالفقار علی زلفی گزشتہ تین دہائیوں سے ادب و ثقافت کے میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ذوالفقار علی زلفی نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد فن و ثفاقت کے فروغ کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ آپ ایک تجربہ کار آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی پائے کے آرٹسٹ بھی ہیں اور ذوالفقار علی زلفی کا کہنا ہے کہ الحمرا اپنی تہذیب و ثقافت کی بھر پور انداز میں پرموشن جاری رکھے گا اور اپنی تجربہ کار ٹیم کے ساتھ ترقی کی منازل طے کریں گے آپ قبل ازیں بھی بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اپنی خدمات شاندار انداز میں نبھا چکے ہیں، آپ ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ اورگزشتہ کئی دہائیوں سے الحمرا میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ فن اور فنکار ہی الحمرا کا اثاثہ اوران کی خدمت ہماری ذمہ داری ہے، محبت کی سرزمین کی اقدار کو فروغ دیتے رہیں گے۔ تفریحی پروگراموں کے انعقاد کا مقصد شہریوں کو گھٹن زدہ حالات میں تفریح کے مواقع فراہم کرنا ہے جس میں حکومت بھر پور تعاون کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں اور ہمیں اس سرمائے کی نہ صرف حفاظت کرنا چاہیے بلکہ انہیں ترقی کے نئے مواقع فراہم کرتے ہوئے ٹیلنٹ ہنٹ جیسے پروگراموں کا انعقاد کرتے رہنا چاہیے تاکہ نوجوان فنکاروں کے ساتھ طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی ہو اور ان میں چھپی صلاحتیں اجاگر ہوسکیں۔
پاکستان میں تھیٹر کے بارے میں عوام کی اکثریت کی رائے صرف ’بیہودہ اسٹیج ڈراموں‘ تک محدود ہے۔ تھیٹر کا تذکرہ لوگوں کے ذہن میں، جو پہلا سوال ابھارتا ہے، وہ محض ’مزاحیہ اور ڈانس والے تھیٹر‘ سے متعلق ہوتا ہے۔وجہ اس کی آرٹ اور کلچر سے دوری ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے۔ بھارت میں 1950ء میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد نے تین تھیٹر اکیڈمیاں قائم کیں۔ ایک ہی عشرے بعد ہندوستان میں یہ تینوں اکیڈمیاں نئے ٹیلنٹ کی آبیاری مستقل بنیادوں پر کرنے لگیں۔ ایسے اداروں کیلئے حکومت کی جانب سے فنڈز کی مسلسل ترسیل سے تھیٹر ہر اسٹیٹ میں مفت تفریح کا ذریعہ بنا۔اس کے نتیجے میں انڈین معاشرے میں نا صرف ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوئی بلکہ لوگوں میں تھیٹر کی اہمیت اور
افادیت کا تصور بھی بحال ہوا۔ انڈین فلم انڈسٹری کے منجھے ہوئے بیشتر اداکاروں نے شوبز کا آغاز ہی تھیٹر سے کیا۔ دنیا میں ہر جگہ فنکار خود کو تھیٹر ایکٹر کہلوانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں جیسے فلم انڈسٹری کا زوال بتدریج دیکھنے میں آیا بلکل اْسی طرح سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کی جگہ ‘گھٹیا کمرشل تھیٹر‘ نے لے لی۔ پاکستان میں تھیٹر کو کبھی بھی سنجیدگی سے آرٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ آج بھی نئی نسل میں کچھ ایسے نوجوان ہیں، جو نامسائد حالات کے باوجود اس آرٹ میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور کچھ منفرد کام کر کے دکھانا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کے پاس وسائل موجود نہیں۔ اس دم توڑتے آرٹ کو نئی زندگی صرف حکومت اور اس کے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں فنون لطیفہ سے جڑی تمام اقسام کی ترویج و فروغ کے لئے ذولفقار علی ذلفی کی کاوشیں اور خدمات کسی سے ڈھکی چپھی نہیں یہ لوگ اس ملک کا اثاثہ ہیں اور حکومت کو ان کی صلاحیتیوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں فری ہینڈ دینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button