ColumnImtiaz Ahmad Shad

اگر فرصت ملے تو۔۔ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

سابق وزیر اعظم عمران خان کے گذشتہ چند دنوں کے بیانات واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بیک ڈور ہونے والی ملاقاتیں کسی نہ کسی نتیجہ کے قریب ہیں۔آج کل عمران خان ہر جلسے میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک میں حکومت تو میری تھی مگر احکامات کہیں اور سے آتے تھے۔صدارتی ریفرنس سے لے کر نیب کے کارناموں تک کسی بھی معاملے میں میری مرضی شامل نہ تھی۔ ان بیانات کے بعد سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے یہ سوالات اٹھانے کے حق بجانب ہیں کہ پھر آپ کس اقتدار کی بات کرتے ہیں جس کے جانے سے عوام کا کوئی نقصان ہوا یا آنے سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہو گا۔ کراچی میں فردوس شمیم نقوی کے گھر پر ہونے والی صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جیسا اقتدارپہلے ملا اگر ایسے ہی ملا تو حکومت قبول نہیں کروں گا،اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اس دفعہ پورے ملک میں ہماری اکثریت کے ساتھ حکومت قائم ہو گی۔اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سے لے کر تاحال عمران خان عوام میں ہیں اور عوام کی اکثریت ان کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔آج پاکستان کی تاریخ کے ایسے ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیںجس کی نظیر شاید سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔عمران خان آٹھ میں سے سات حلقوں سے بطور امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ریفرنڈم ہوگا۔ میری اطلاعات کے مطابق عمران خان میدان مار لیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ان ضمنی الیکشن کو ریفرنڈم مان لیا جائے گا؟کیا اس کے بعد عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا؟نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگابلکہ ایک دو نشستوں پر گڑبڑ کی جائے گی اور عمران خان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا کہ اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر مات کھا گئے۔ قوم کا مستقبل جو پہلے ہی تاریک ہے،سیاست کی چکا چوند نے اسے مذید تاریکیوں میں دکھیل دیا ہے۔ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے سے لے کر موجودہ حکومت میں شامل ملزمان کو باعزت بری کرنے تک، بھوک سے بلبلاتی قوم کے اربوں روپے معاف کرنے سے قرضوں کی برسات تک، اگر صاحب اقتدار کو فرصت ملے تو ایک دفعہ سیلاب کی زد میں آئے ملک کے ساٹھ فیصد حصے سے لے کر گلگت بلتستان اورکشمیر کی حکومتوں کے فنڈز روک کر انہیں مفلوج کرنے کی بھونڈی حرکت تک ضرور غور فرمائیے گا۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم آزاد کشمیر سے ملاقات ہوئی ،ان کی کابینہ اور خود وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی گفتگو سن کر دل دکھی ہوا۔وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق ریاستی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو دینے کیلئے پیسے تک نہیں ہیں۔ ریاست میں ترقیاتی منصوبہ جات شروع کرنے کیلئے درکار وسائل بھی روک لیے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وفاقی منصوبوں پر خرچ پیسوں کی رقم بھی آزاد کشمیر حکومت کو نہیں دی جارہی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی شکایات سے قبل ریاست کا مالیاتی نظام جاننا لازمی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کا ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ 102 ارب روپے ہے، جبکہ دیگر اخراجات آزاد کشمیر حکومت ٹیکس کے ذریعے جمع کرتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے جبکہ 28 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان 2018 میں ایک مالیاتی معاہدہ ہوا، جس کے تحت وفاقی حکومت کل جمع کردہ ٹیکس کا کچھ حصہ آزاد کشمیر کی حکومت کو ادا کرنے کی پابند تھی۔ اس بار حکومت پاکستان نے 6 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کیا مگر آزاد کشمیر حکومت کو تاحال 2 ارب 60 کروڑ جاری کیے گئے۔ جبکہ حکومت نے 28 کے بجائے کل بجٹ 26 ارب کردیا، حالانکہ معاہدے کے تحت آزاد کشمیر حکومت کے فنڈز میں سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد اضافے کی پابند تھی۔ایسے حالات میں کشمیر کی عوام بد دلی کا شکار ہو چکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرتی اور کشمیر ایسے حساس علاقے کی عوام کو سہولیات فراہم کرتی مگر افسوس کشمیر کی حساسیت کو بھی بغض عمران کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، جو پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔دوسری اہم بات وطن عزیز کا ساٹھ فیصد حصہ سیلابی ریلوں کی زد میں آکر مکمل تباہ ہو گیا،آغاز میں تو حکومتیں سوئی رہیں جب بیدار ہوئیں تو محض آنیوں جانیوں اور فوٹو سیشن کی حد تک۔ سندھ تاحال پانی میں گھرا ہے۔عمران خان بھی کراچی گئے مگر بچارے سندھی بھائیوں کو امداد کے بجائے وعدہ دے آکر گئے کہ میں لانگ مارچ سے فارغ ہو کر آئوں گا ، حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ میں نے اربوں روپے سیلاب زدگان کیلئے اکٹھے کر لیے ہیں، اسی طرح مرکزی حکومت بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ ہمیں بیرونی امداد کافی آچکی ،ہم بھی سیلاب زدگان کی مدد کریں گے،مگر کسی کو یہ احساس نہیں ہو پا رہا کہ ان مصیبت کے ماروں کو ضرورت اب ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات واضح ہیں،ان پربحث وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔میدان عمل میں اگر کوئی نظر آرہا ہے اور جس کی تصدیق اقوام عالم کررہی ہے تو وہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہیں، وہ چونکہ میدان میں نظر آرہے ہیں۔
تاہم ان سے ملاقات ہوئی اور سیلاب میں پھنسے تین کروڑ انسانوں کی داستان جب ان کی زبانی سنی تو آنسوئوں کو روکنا مشکل ہو گیا۔دو گھنٹوں پر محیط اس ملاقات میںمرکزی حکومت کی بے حسی سے لے کر سیلاب زدگان کی تکالیف تک ہر پہلوکو سراج الحق نے مختصر مگر جامع انداز سے بیان کیا۔ جو وہ کر چکے اس کے بارے میں بتایا اور آگے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے جو اقدامات لینے جارہے ہیں اس پر روشنی ڈالی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کا کوئی تخمینہ بتائیں تاکہ اس پر کوئی بات کی جا سکے تو انہوں نے درد دل کے ساتھ کہا کہ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت سیلاب زدگان کے حوالے سے بے حس تو تھی مگر اس قدر غیر سنجیدہ ہو گی کہ ایشین بنک رپورٹ دے رہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کا چالیس بلین ڈالر کا نقصان ہو گیا مگر پاکستان کا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کہہ رہا ہے کہ نہیں ہمارا تیس ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔اب اس غیر سنجیدگی پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔سراج الحق کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکومتی بے حسی سے پریشان ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ جس بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اس کے تدارک کیلئے ایک عرصہ درکار ہے۔انہیں یہ خدشہ ہے کہ جس طرح 2005 کے زلزلے کے بعد دنیا سے آئی ہوئی این جی اوز نے ہمارے نوجوانوں کو ورغلایا بالخصوص نوجوان بچیوں کو بے راہ روی کا شکار کیا جس کا آج تک ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں ، اس سیلابی آفت کے بعد ان علاقوں میں نوجوان نسل کو برباد نہ کر دیا جائے۔اہل اقتدار کو اگر فرصت مل جائے تو آج کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر سے لے کر امیر جماعت اسلامی سراج الحق تک کے خدشات کو سنا اور سمجھا جائے ورنہ ملک میں بھوک اور ننگ کا وہ بازار گرم ہونے والا ہے جس کی تپش لندن کے بڑے محلات میں یقیناً اپنا اثر دکھائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button