ColumnImtiaz Aasi

سائفر تحقیقات جج سے کرانے میں رکاوٹ کیا؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عمران خان کی نااہلی کا خواب دیکھنے والوں کو ملک اور عوام کی فکر کی بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت کہاں ہے۔پہلے آڈیولیکس کا شورغوغا تھا اور اب سائفر غائب ہونے پرآسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔پہلے کہتے تھے سائفر نام کی کوئی چیز نہیں اور اب کہتے ہیں سائفر چوری ہو گیاکبھی سائفر میں ٹمپرنگ کر دی ہے اور اب سائفر گم ہو گیا ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے وزارت خارجہ میں تو موجود ہے۔ تو کیا اس سارے قضیے کا مناسب حل یہ نہیں کہ عدلیہ کے کسی جج سے اس معاملے کی تحقیقات کرالی جائے۔؟
اس موضوع پر اخبارات میں بڑی بڑ ی سرخیوں کے ساتھ خبریں اور ٹی وی چینلز ٹاک شو جاری ہیں۔ عمران خان کے وارنٹ گرفتار ی جاری ہوئے تو طوفان برپا ہو گیا۔ کوئی ملزم اپنی پیشی پر عدالت میں حاضر ہونے سے قاصر رہے تو پہلے اس کے ضمانتی وارنٹ جاری ہوتے ہیں پھر بھی حاضر نہ ہو تو بلاضمانتی وارنٹ گرفتاری جاری ہو جاتے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں جنہیں کبھی کسی نے بلایا نہیں تھا۔ اس طرح کے لوگوں کو ٹی وی چینلز پر دعوت دے کر چینلز کو بے وقعت کیاجا رہا ہے ۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی سے اقتدار میں دو مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری پر کاری ضرب لگنے سے معاملات خراب ہوئے ہیں ورنہ تو اقتدار کی بندربانٹ دو خاندانوں تک محدود تھی۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے کسی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بنتا تو اگلی حکومت آنے تک اسے التواء میں رکھ دیاجاتا معاملات آپس میں رہتے تھے۔ عوام اتنے بھولے نہیں وہ عمران خان کے پیچھے دیوانہ وار چل پڑے ہیں۔ عمران خان نے کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرکے کھیل خراب کر دیا ہے۔ کرپشن مقدمات کی واپسی سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پاس کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔ مسلم لیگ نون نے اہم اداروں میں اپنے ہم خیال بندوں کو لگا کر مقاصد حاصل کر لئے ہیں اورآصف زردری اتحادی ہونے کے ناطے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نواز شریف اپنے دور میں اہم اداروں میں من پسند لوگوں کو تعینات کرکے فوائد حاصل کرنے میں ثانی
نہیں رکھتے۔ یہ انہی کا کمال تھا کہ عمران خان کرپٹ لوگوں کے خلاف احتساب کرنے میں ناکام رہے۔ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں وہ احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ ملک کے اہم اداروں میں نواز شریف کے بااعتماد لوگ موجود ہیں۔
حکومت نے سائفر کی گمشدگی کی انکوائری ایف آئی اے سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف آئی اے وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ عمران خان کا مطالبہ درست ہے کہ سائفر کی انکوائری کسی جج سے کرائی جائے۔ حکومت کی نیت صاف ہے تو کسی جج سے تحقیقات کرانے میں کیا حرج ہے۔ ملک میں عدلیہ ایسا فورم ہے جس پر عوام کو پورا اعتماد ہے۔ ہمیں ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے۔ ہماری اپیل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں لگی تو ہمارے وکیل مرحوم سردار اسحاق خان جن کا شمار فوجداری مقدمات کے ماہر وکلا ء میں ہوتا تھا، کہنے لگے تم نے کس بینچ میں کیس لگوا یاہے یہ تو بات نہیں سنتے۔ اللہ سبحانہ تعالی کی مہربانی اور میری والدہ کی دعائوں سے اسی بینچ سے ہمیں ریلیف مل گیا۔ کہنے کا مطلب ہے ہمیں
عدلیہ پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے نہ کہ کسی پر بے جاتنقید کو اپنا معمول بنا لینا چاہیے۔ عمران خان سائفر کی تحقیقات عدلیہ کے کسی جج سے کرانا چاہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ حکومت چیف جسٹس سے درخواست کرے گی تو جج کی تقرری چیف جسٹس نے کرناہوتی ہے نہ کہ عمران خان نے کرنی ہے۔ گوہمیں حکومت کی نیت پرشک نہیں لیکن عدلیہ کے کسی جج سے سائفر کی انکوائری کرنے میں کون سی قانونی رکاوٹ ہے؟ حکومت کو ضد چھوڑ دینی چاہیے اور معاملات کو کسی طرف لگنے دینا چاہیے۔ مریم نواز کا بیان عمران خان وزیراعظم ہاوس سے جاتے منرل واٹر کی بوتلیں لے گئے بہت چھوٹی بات ہے حالانکہ عمران خان وزیراعظم ہاوس چھوڑتے وقت اپنی ڈائری ساتھ لے کر گیا نہ کہ وہ منرل واٹر کی بوتلیں لے کر گیا۔ سیاست دانوں کو اتنی نچلی سطح پر نہیں جانا چاہیے۔ ٹھیک ہے سیاست میں ایک دوسرے سے تھوڑی بہت مخاصمت ضرور ہوتی ہے جس طرح آج کل ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں مہذب معاشروں میں اس طرح نہیں ہوتا۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے عمران خان کو نااہل کرایا جائے۔ یہ عمران خان کی راست بازی اور عدالتوں کے احترام کا نتیجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس داخل دفتر کر دیا ہے۔ حکومت عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کا بھاشن دے رہی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ہوتے ہوئے کسی سے ناانصافی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل حکومت تحریک انصاف کے چیئرمین کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہے۔ حکومت کو پوری طرح ادراک ہے کہ انتخابات کی صورت میں عمران خان کا اقتدار میں آنا یقینی ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کی کال دینے والا ہے، حکومت لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے جب کہ عمران خان نے لانگ مارچ سے متعلق اپنا پلان صیغہ راز میں رکھا ہوا ہے۔ حکومت کی توجہ سیلاب زدگان کی بجائے عمران خان کے لانگ مارچ پر ہے۔ ان سے کوئی پوچھے اقتدار میں آنے کے بعد ملک اور عوام کے کون سے مسائل حل ہوئے ہیں۔ بس عوام کو لاروں پر رکھا ہوا ہے۔ حکومت نے اپنے مقدمات کی واپسی کا ہدف پورا کر لیا ہے لہٰذاانتخابات کرانے چاہئیں اور عوام کو اپنے من پسند نمائندوں کو منتخب کرنے کو موقع دینا چاہیے۔ انتخابات کو التواء میں رکھنے سے حکومت کو عوامی رد عمل سے بچنا مشکل ہو جائے گا لہٰذا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں ہی عافیت ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے سیاسی اور معاشی استحکام میں مدد مل سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button