ColumnNasir Sherazi

پلے کچھ نہ تھا! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

نفرتوں کے معاملے میں ہم بہت آگے بڑھ گئے، یہ سماجی ہوں یا سیاسی تمام انتہائیں ختم ہوچکی ہیں، محبتوں کے معاملے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، وہ گھرانے بہت خوش قسمت ہیں جہاں ہر رشتے میں محبت پائی جاتی ہے، زیادہ تر ورکنگ ریلیشن شپ نظر آتی ہے، مشرقی معاشرے میں ماں کی اولاد سے محبت، بھائیوں بلکہ منہ بولے بھائیوں تک کی محبت اس کا حسن سمجھی جاتی تھی اب یہ حسن وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ گیا ہے۔ باپ کی محبت کا ذکر میں اس لیے نہیں کررہا کہ وہ اپنی جوانی، صحت، رات کی نیند، دن کا چین سب کچھ اولاد کو دے دیتا ہے، اپنی خواہشیں ادھوری رکھ کر اولاد کی آنکھوںمیں آنسو نہیں آنے دیتا لیکن اس کے قدموں تلے جنت نہیں ہے، وہ اولاد کو جنت نہیں دے سکتا پس سمجھ لیجئے۔ اُس نے اولاد کو کچھ نہیں دیا، اگر اس نے عمر بھر گھر کو جنت بنائے رکھا ہے تو بھی یہ کوئی کمال نہیں، میاں بیوی کی محبت کے مظاہر ہر گائوں اور شہر میں ملتے ہیں لیکن جوان بیوی کے انتقال کے بعد اگر اس کا جوان شوہر دوسری شادی نہ کرے تو محبت کی انتہائی سمجھی جاتی ہے، بیوی کی محبت کو گلے لگاکر اپنے بچوں کو باپ کے ساتھ ماں بن کر پالتا نظر آئے تو دنیا کے کاغذوں میں پاس وگرنہ فیل، مردوں کی تعداد کم اور خواتین کی تعداد میں اضافے کے سبب اب جوان مرحومہ کے شوہر کے کان میں چالیسویں سے اگلے روز آواز پڑتی ہے، ارے بندہ ! اپنا نہیں تو ان کمسن معصوم بچوں کا سوچو، پہاڑ سی زندگی ہے، کیسے گذرے گی، بیگم کی محبت سے محروم ابتدا میں تو نہ نہ کرتا ہے پھر عزیز و اقارب کے پر زور اصرار پر مان جاتا ہے اور کسی سے چار کلمے پڑھاکر اُسے گھر لے آتا ہے، پھر ٹھیک اسی دن سے وہ بے وفائوں بلکہ بد چلنوں میں شمار ہونے لگتا ہے کہ اس نے بیگم کی قبر کی مٹی بھی سوکھنے نہ دی، یہ بات محاورے کی حد تک تو درست ہے وگرنہ ہمارے یہاں جتنی گرمی پڑتی ہے، اس میں قبر کی مٹی ٹھیک دو گھنٹے میں سوکھ جاتی ہے، تھائی لینڈ میں بیوی سے ٹوٹ کر محبت کرنے کا عجیب واقعہ سامنے آیا ہے، بنکاک کے ایک شہری کی بیوی کا انتقال ہوگیا، اس کی آخری رسومات ان کے رسم و رواج کے مطابق ادا کردی گئیں، لوگ رخصت ہوگئے لیکن اُس شخص نے بیوی کو مرنے کے بعد ایک باکس میں رکھ کر اپنے چھوٹے سے کمرے میں ایک بڑی سی میز پر رکھ دیا، اس شخص نے اپنی مرحومہ بیگم کے ساتھ اسی طرح اکیس سال گذار دیئے، بہتر سالہ چرن جنونچکل نامی شخص کی بیوی 2001میں فوت ہوئی تھی، چرن ان اکیس برسوں میں روزانہ صبح و شام اپنی بیوی سے اسی طرح گفتگو کرتا تھا جیسے وہ
زندہ ہو اور اس کی باتیں سن رہی ہو۔ سوشل میڈیا پر اس کے کمرے اور اس کی بیوی کے تابوت کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تو آس پاس کے لوگ متوجہ ہوئے، ایک این جی او کے نمائندوں نے بمشکل اسے بیوی کی تدفین کے لیے رضا مند کیا یوں 30اپریل 2022ء کو اس کی بیوی کو دفن کیاگیا جو اکیس برس قبل اس جہاں سے کوچ کرگئی تھی، اکیس برسوں میں مرحومہ کی باکس میں پڑی رہنے والی میت کا کیا حال ہوچکا ہوگا یہ سب قرین ازقیاس ہے لیکن آپ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا جی خراب نہ کریں بلکہ چرن کی بیگم سے محبت کو سراہیں۔ میرے خیال میں چرن کو اپنی بیگم سے محبت کا عالمی ایوارڈ دینا چاہیے، آپ چرن کو نیم پاگل، مخبوط الحواس یا احمق جو بھی کہیں لیکن اس کے حوصلے کی داد دیں کہ اُس نے اپنی مردہ بیگم کے ساتھ اکیس برس گذارے، ہمارے یہاں تو اب زندہ بیوی کے ساتھ اکیس برس گذارنے والوں کی تعداد خال خال ہے، اس کی وجوہات دو طرفہ ہوں گی، لیکن کبھی ٹی وی کے اشتہار کی پیروڈی میں بتایا جاتا تھا کہ ’’بیوی ایک درندہ ہے جو گھر میں رہتا ہے‘‘ اصل اشتہار یوں تھا، ’’کیوی ایک پرندہ ہے‘‘۔
شادی کو خانہ آبادی کہا جاتا ہے، گھروں کے اُجڑنے کی کہانیاں سامنے آئیں تو اسے خانہ بربادی بھی کہا جانے لگا، یہ بات بھی عام ہوئی کہ شادی وہ لڈو ہے جس نے کھایا وہ پچھتایا، جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا۔ مشاہدے میں آیا کہ جس نے لڈو نہ کھایا وہ تو پچھتایا لیکن جس نے یہ لڈو کھایا وہ زیادہ پچھتایا۔ اندازہ فزمائیے جنہوں نے ضرورتاً یا حماقتاً یہ لڈو ایک سے زائد بار کھایا ان کا کیا حال ہوا ہوگا۔
محبت اور شادی میں دھوکے صرف ہمارے یہاں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں، ایک بزرگ نے تنہائی سے تنگ آکر ایک نسبتاً کم عمر خاتون سے شادی کا فیصلہ کرلیا، لڑکی والوں نے کپڑے، زیور کی جو بھی فرمائش کی بزرگ لڑکے نے پوری کی بلکہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس کارخیر میں لٹادی، وقت مقررہ پر وہ بارات لیکر لڑکی والوں کے یہاں پہنچا تو گھر پر پڑا تالہ براتیوں کا منہ چڑارہا تھا، ہمسایوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ شب گذشتہ گھر چھوڑ گئے ہیں، کہاں گئے ہیں یہ کسی کو معلوم نہ تھا، آپ سمجھتے ہوں گے یہ بہت بڑا دھوکہ ہے، یقیناً بزرگ لڑکے کے لیے ، یہ بہت بڑا دھوکہ ہے لیکن ہمارے ملک میں جتنے بڑے دھوکے ہیں یہ ان کے مقابلے میں بہت چھوٹا سا دھوکہ ہے۔
انڈونیشیا میں ایک خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُسے بڑا دھوکہ کہہ سکتے ہیں، انڈونیشیا کے شہر سماٹرا سے تعلق رکھنے والی ایک نوبیاہتا نے بتایا ہے کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، خاتون کے مطابق وہ اپنے شوہر سے ایک ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے ملی، اُس شخص نے بتایا کہ وہ سرجن ڈاکٹر ہے، لیکن اُس کے ساتھ ساتھ وہ کوئلے کا کاروبار بھی کرتا ہے، دونوں ایک دوسرے کو اس حد تک اچھے لگے کہ شادی کا فیصلہ ہوا اور شادی کرلی گئی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اب شادی کے دس ماہ بعد معلوم ہوا ہے کہ اُس کا خاوند ایک مرد نہیں بلکہ عورت ہے، دونوں کبھی ایک کمرے میں ایک بیڈ پر یعنی ایک پیج پر نہیں تھے۔ حیرت کی بات ہے دس ماہ تک اصلیت نہ کھل سکی مزید حیرت کی بات ہے کہ دونوں میاں بیوی دس ماہ تک کیا کرتے رہے، عین ممکن ہے صرف باتیں کرتے رہے ہوں، ہوسکتا ہے دونوں کو آج کا کام کل پر ٹالنے کی عادت ہو، دونوں نوکری کرتے ہوں، کیونکہ غیر ممالک میں ہائوس وائف والا معاملہ نہیں ہوتا، میاں بیوی دونوں کو کچھ نہ کچھ کام کاج کرنا پڑتا ہے پھر جاکر کہیں گذارا ہوتا ہے۔ غیر ممالک کی نوکریاں مختلف شفٹوں میں ہوتی ہیں۔ بادی النظر میں لگتا ہے بیوی کی ڈیوٹی صبح کی شفٹ میں ہوگی اور خاوند کی ڈیوٹی رات کی شفٹ میں ہوگی، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ویک اینڈ تو آتا ہی ہوگا۔ کیا ویک اینڈ بھی باتیں ہی باتیں کرتے گذار دیتے تھے، اگر ایسا تھاتو ایک فریق نہایت ہی بھولا بھالا جبکہ ایک فریق ثانی انتہائی مکار، اس نے باتوں میں لگائے رکھا اور دس ماہ گذار دیئے۔ میرے خیال میں یہ بھی چھوٹا دھوکہ ہے، بڑا دھوکہ تو اہل پاکستان سے ہوا ہے، ہمیں چھبیس برس تک سمجھ نہ آئی ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے، ساڑھے تین سال قبل ہم ایک بندھن میں بندھے تھے پھر بھی اندازہ نہ ہوا کہ حقیقت کیا ہے، ملکی قرضوں کے انبار دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ہمارے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہے، ہمارے ساتھ صرف باتیں کی جاتی رہیں، پلے کچھ نہ تھا، ستم بالائے ستم، باتیں اب بھی جاری ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button