ColumnNasir Sherazi

اَن ریسٹ سے اریسٹ تک ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

وقت صدیوں کا سفر طے کرکے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے مگر کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے کہیں ٹھہر گیا ہے۔ سامری کے بچھڑے کی بھاں بھاں سے قوم اُس وقت بھی گمراہ ہوئی تھی آج بھی گمراہ ہورہی ہے۔
ہر دور کا اپنا سامری ہوتا ہے اور اُس کا اپنا بچھڑا، ہماری بدقسمتی دیکھئے ہمارے دور میں درجنوں سامری ہیں اور ہر سامری کے پاس درجنوں بچھڑے ہیں جو شام ہوتے ہی بھاں بھاں کرنا شروع کرتے ہیں اور رات بھر یہی کچھ کرتے رہتے ہیں، ایک سامری تو ایسا ہے جس کے پاس بچھڑوں سے زیادہ بچھیاں ہیں جن کی چاں چاں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
چار صوبوں کے آٹھ شہروں کے آٹھ چوکوں میں سامری کی آواز پر اُس کے چاہنے والے اور چاہنے والیاں پہنچ جاتے ہیں اقتدار کھودینے کے بعد یہ ریہرسل اٹھارہ مرتبہ کی گئی ہے، سامری کو جہاں پہنچنا ہوتا ہے وہ اچانک وہاں سے غائب ہوجاتا ہے، جنتا منہ تکتی رہ جاتی ہے اُسے اسلام آباد میں ڈھونڈا جاتا ہے وہ خیبر پختونخوا میں نظر آتا ہے شاید اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے پر یقین رکھتا ہے۔ خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا، ایک عدالت میں اُس نے وعدہ کیا کہ وہ معافی مانگنے اُس کے پاس جائے گا وہ اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت پہنچا تو جج صاحبہ موجود نہ تھیں لہٰذا وہ معافی جج صاحبہ کے ریڈر کے پاس رکھواآیا ہے کہ آئیں تو ان کے حوالے کردینا، جج صاحبہ باوقار اور سمجھدار ہیں معافی دینے کے لیے خود موجود نہ تھیں لگتا ہے تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے، ان کے مشاہدے میں آیا ہوگا سامری جس گھر کے پھیرے ڈالے گھر جل جاتا ہے، کبھی کبھی وہ گھر کے چراغ کو ایسا راستہ دکھاتا ہے کہ باقی کام گھر کا چراغ خود کرلیتا ہے، لاتعداد گھر کے چراغ گھروں کوآگ لگاکر آتش بازی کے مزے لے رہے ہیں اور اب بدلتے موسم میں ہاتھ بھی سینکا کریں گے۔ جج صاحبہ کو دھمکیاں دینے کے حوالے سے مقدمہ درج ہوا۔بلایاگیا، سامری نہیں آیا تو وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے جس پر ضمانت بہ آسانی ہوجاتی ہے لیکن افواہ پھیلائی گئی کہ گرفتار کرنے لگے ہیں، ہزاروں اہلکاروں نے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے سینکڑوں گھر کے اندر داخل ہوگئے ہیں، جادوگروں کی گرفتاری یوں نہیں کی جاتی، انہیں گرفتار کرنے کے چوبیس گھنٹے بعد چیلوں کو علم ہوتا ہے باس گرفتار ہوچکا ہے، سامری کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوگا مگر ابھی نہیں، گرفتاری بنی گالہ سے نہیں ہوگی، زمان پارک سے بھی نہیں کہیں اور سے ہوگی، انتظامات سے اندازہ ہوتا ہے اس کا پہلا قیام سہالہ ریسٹ ہائوس ہوگا مکمل ریسٹ کے بعد پھر وہاں پہنچایا جائے گا جہاں ان ریسٹ کرنیوالے اریسٹ کرکے پہنچائے جاتے ہیں۔
میرے تجزیے کے عین مطابق سامری ایڈورڈ کالج پشاور گیاوہ دیگر شہروں کے مختلف کالجز جائے گا، پروگرام میں خواتین کے کالجز کا دورہ بھی شامل ہے لیکن وہ شاید دو تعلیمی اداروں میں جانے کی جرأت نہ کرے اول پنجاب یونیورسٹی اور دوم اسلامیہ کالج، ویسے ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج بھی اسی حوالے سے درخشاں تاریخ رکھتے ہیں ادھر کا رخ کیاگیا تو مہنگا پڑے گا۔ کئی دہائیاں قبل سیاسی جلسے کی رونق پارٹی کارکن اور پارٹی کارکنوں کے بھیس میں مخالفین ہوا کرتے تھے، کارکنوں کا کام جلسے کی رونق بڑھانا اور مخالف ٹولے کا کام جلسہ اٹھانا ہوا کرتا تھا، سامری نے سیاسی جلسوں کو پک نک اور میلے ٹھیلے کا رنگ دے دیا ہے، یہاں اب تھیٹر نظر آتا ہے، ماضی کے تھیٹر میں خواجہ سرا رقص کرتے تھے، اب نوجوان لڑکے لڑکیاں کچھ ادھیڑ عمر مائیاں بھی ناچتی نظر آتی ہیں، محفل موسیقی بھی لازمی جزو بن گیا ہے، بین الاقوامی سطح کے گلوکار اپنی آواز کا جادو بکھیرتے ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہوتا کیونکہ ہر طرف حسن کا جادو اور اس کے لشکارے نظر آتے ہیں، اب ایسے میں اس گلوکار کو کوئی کیوں سنے جو خوشی کا گیت گائے تو بھی یوںلگتا ہے جیسے
محبت کا جنازہ جارہا ہے، پچاس ہزار کا مجمع بڑا ہوتا ہے، سامری کے جلسے میں اگر پچاس ہزار افراد پہنچ جائیں تو اسے کامیاب سمجھا جاتا ہے، ان میں دس ہزار کارکن، دس ہزار سکیورٹی اہلکار، پانچ ہزار جیب کترے، دس ہزار لفنٹر سیمی جرائم پیشہ، دس ہزار پھونڈ اور پانچ ہزار ضرورت رشتہ کے تحت آئے ہوئے مختلف عمروں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اور ادھیڑ عمر مردو خواتین بتائی جاتی ہیں، نئے انتظامات کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ خواجہ سرائوں کی ان جلسوں میں شرکت کو یقینی بنایا جائے ان کے لیے خاص سہولتوں کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے جن میں ٹرانسپورٹ اور علیحدہ انکلویئر شامل ہیں، خواجہ سرائوں کو اہمیت دینے کی بڑی وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ ان کی موثر تعداد میں موجودگی سے جلسہ دھرنا اور لانگ مارچ کی کامیابی کا تناسب بہتر ہوجائے گا کیونکہ وہ طبیعت کے اعتبار سے لبرل ہوتے ہیں مزید برآں پولیس مقابلے کی صورت میں وہ پسپا نہیں ہوں گے پولیس کو ہی پسپا ہونا پڑے گا، اس کا عملی مظاہرہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی لاہور میں ہوچکا ہے، جہاں خواجہ سرائوںنے سکیورٹی گاڑیوں کے بونٹ پر چڑھ کر رقص کیا اور پولیس و سکیورٹی اہلکاروں کو دل کھول کر پھینٹی بھی لگائی۔
سامری کے بارے میں ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اُسے انتخابات سے قبل کسی چھوٹے موٹے قابل ضمانت مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جائے گا دونوں طرف سے ڈرانے، دھمکانے اور دوڑانے کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ سامری یہ نہ کہے کہ مجھے انتخابات سے آئوٹ کرنے کے لیے گرفتار کیاگیا ہے، مجھے نااہل قرار دے کر نااہلوں کو اقتدار میں لانے کا راستہ ہموار کیاگیا ہے، میں تو ملک بھر میں کلین سویپ اور دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آرہا تھا لیکن نیوٹرل نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ سامری دھڑلے سے انتخاب لڑے گا بھرپور الیکشن مہم چلائے گا اس مرتبہ وہ اے ٹی ایم نہیں ہوں گے جو گذشتہ الیکشن میں تھے نئے اے ٹی ایم نیا طریقہ کار ہوگا پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے پھر بھی غربت کا رونا رو کر الیکشن فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے میراتھن کی جائے گی۔ سامری کا خیال ہے کہ وہ انتخابات میں کھمبے کھڑے کرے گا تو کھمبے جیت جائیں گے ایسا نہیں ہوگا جن کھمبوں کے جیتنے کا امکان ہوگا وہ کسی اور پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے سامری کی اپنی جماعت کے چالیس کھمبے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہیں نصف سے زائد کے معاملات طے پاچکے ہیں، دنیا اس وقت حیران رہ جائے گی جب اس کی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے والا اور انڈسٹریل گارڈر کی سی طاقت اور سپورٹ رکھنے والا اس سے علیحدگی کا اعلان کرکے اس کی مخالف جماعت کے ساتھ جاملے گا، جماعت کا لینٹر درحقیقت اسی روز گر جائے گا لیکن اس پر کوئی ری ایکشن نہیں دیا جائے گا، الیکشن کے حتمی نتائج آنے کے بعد انہیں مسترد کردیا جائے گا، دھرنا یا لانگ مارچ اس وقت ہوگا اس سے قبل صرف ریہرسل ہے، دھرنے اور لانگ مارچ کا مقصد ملک میں ان ریسٹ ہوگا، اس موقعے پر اصل اریسٹ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button