Editorial

سیاست میں میانہ روی کی ضرورت

 

حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے کہا ہے کہ عمران کے خلاف سیکرٹ ایکٹ پر کارروائی کی جائے،ایوان وزیراعظم کی آڈیو لیکس ہونا اہم سکیورٹی بریچ ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین جاتے وقت ڈائری میں سائفر بھی چھپا کر لے گئے ۔ سائفر کی برآمدگی کے لیے بنی گالہ پر چھاپہ مارنا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کرتے ہوئے کہاہے کہ سات روز میں لانگ مارچ کی تاریخ دیں گے، فیصلہ اب سڑکوں پر ہوگا اور اسد قیصر نے کہا کہ پریس کانفرنس کے فوری بعد عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے لیکن عمران خان کو گرفتار کرنے کی غلطی مت کرنا !پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ اگر پاکستان کے لوگ اب بھی باہر نہیں نکلے تو ہم برما یا تھائی لینڈ کے ماڈل پر چلے جائیں گے یعنی ہمارا حال بھی انہی ممالک کے حال جیسا ہوگا۔ چند روز قبل ہی اہم حکومتی شخصیات اور کچھ روز بعد ہی چیئرمین تحریک انصاف کی خفیہ ریکارڈنگ نامعلوم ذرائع سے منظر عام پر آئی اور ابھی اِس معاملے کی تہہ تک پہنچے ہی نہیں کہ اب سائفر کا معاملہ سامنے آگیا ہے، چند ماہ قبل تک عمران خان عوامی اجتماعات میں اِس کا بار بار ذکر کرتے ہوئے اسی مراسلے (سائفر)کواپنی حکومت ختم کرنے کی وجہ قرار دے رہے تھے لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ مراسلہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں ہے، حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت نے عمران خان کے خلاف سیکریٹ ایکٹ پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ حالات حاضرہ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان جس نوعیت کی گرما گرمی دیکھنے میں آرہی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت سے سخت بیانات داغے جارہے ہیں، اِن سے یہی نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا اور جیسا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے جلد لانگ مارچ کا عندیہ دے دیا ہے اِس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش مزید بڑھے گی۔ ذرائع ابلاغ کا روزانہ جائزہ لینے سے بھی ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی اختلافات اور کھینچاتانی عروج پر ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی فریق برداشت کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ عمران خان اپنااقتدار ختم ہونے کے بعد سے رابطہ عوام جاری رکھے ہوئے ہیں اور بلاشبہ ان جلسوں کے ذریعے وہ حکومت پر دبائو بڑھانے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حکمران جماعت بھی جواباً تابڑ توڑ حملے کررہی ہے کیونکہ مرکز میں حکومت قائم کرنے کے بعد پنجاب میں اقتدار حاصل کرکے کھودینے کا صدمہ بھی اتحادی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون کو اُٹھانا پڑ ا ہے کیونکہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز پوری کوشش اور صوبے میں آئینی بحران کے باوجود انتہائی مختصر وقت کے لیے محض چند ماہ کے وزیراعلیٰ پنجاب رہ سکے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے نتیجے میں دوبارہ انتخاب کے بعد چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی بھی ہیں۔ گذارش کا مقصد محض یہی بیان و ظاہر کرنا ہے کہ ملک و قوم سنگین معاشی بحران سے دوچار ہیں اسی لیے مہنگائی اور اِس کے نتیجے میں غربت میں تاریخ ساز اضافہ بھی ہوچکا ہے اور حزب اقتدار و
حزب اختلاف دونوں ہی اِس کا اعتراف کرتے ہیں پھر گزشتہ کئی ماہ سے وطن عزیز کا نصف سے زائد رقبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوچکا ہے، اناج کی قلت اور قحط کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، عالمی برادری کے سامنے باربار جھولی دراز کی جارہی ہے کہ متاثرہ افراد اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے ہماری زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے کیونکہ کروڑوں لوگ اِس تباہی سے دوچارہوکر کھلے آسمان تلے پڑے ہیںاور ہماری معاشی سکت ایسی نہیں کہ ہم اپنے وسائل کے ذریعے سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ مقابلہ کرسکیں ۔ عالمی سطح پر معاشی بحران کے اثرات کی زد میں بھی ہم ہیں اور مزید برے حالات کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے،روس یوکرین جنگ سمیت وسطی اور جنوبی ایشیا کے حالات بھی مزید برے معاشی وقت سے ڈرا رہے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت کے رویوں اور ان کے ایک دوسرے سے متعلق مسلسل عزائم کا اظہار ہمارے معاشی بحران، عوام کے مسائل، تاریخ ساز مہنگائی اور سیلاب سے تباہ کاریوں اور کروڑوں متاثرہ پاکستانیوں کے مسائل سے لاتعلقی ظاہر نہیں کرتا تو اور کیا ہے؟ کیا ملکی حالات ایسی سیاسی کشمکش اور کھینچا تانی کے متحمل ہوسکتے ہیں اور کیا اِس کشیدگی سے معاشی بحران اور قوم کی حالت زار بدلنے والی ہے؟ ملکی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی قیادت نے کبھی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور بسا اوقات تو حصول اقتدار کے لیے غیر جمہوری رویے بھی اختیار کئے گئے ہیں وگرنہ میثاق جمہوریت کبھی نہ ہوتا۔دراصل ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والا میثاق جمہوریت اُن غلطیوں کا اعتراف ہے جو دونوں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف دہرائیں اور نتیجے میں غیر جمہوری قوتوں کے لیے راستہ ہموار ہوا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات اور سیلاب سمیت دیگر درپیش چیلنجز سیاسی قیادت کی سنجیدگی چاہتے ہیں لیکن جس نوعیت کی عدم برداشت کے مظاہرے مسلسل دیکھنے کو مل رہے ہیں اِن کے نتائج قطعی مثبت برآمد نہیں ہوں گے، سیاسی پارہ جتنا چڑھایاجارہا ہے اِس کو نیچے لانا ہی پڑے گا، ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا پڑے گا اور مینڈیٹ کا احترام بھی کرنا پڑے گا۔ ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے سر جوڑنا بھی پڑے گا اور تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا پڑے گا، جب انسانی تاریخ میں دوسرے کو اشتعال دلانے کے نتائج کبھی مثبت برآمد نہیں ہوئے تو ہم کیوں دوسرے کی برداشت کو آزما رہے ہیں۔ ہر خاندان یا گھر میں کوئی نہ کوئی بڑا یا بزرگ ایسا ضرور ہوتا ہے جو خاندان اور گھر کو جوڑ کر رکھتا ہے، کیا اِس لحاظ سے پوری قوم یتیم ہے؟ کوئی ایسا نہیں جو حالات کی سنگین اور عدم برداشت کو دیکھ کرمداخلت کرے اور سبھی قائدین کو مل بیٹھ کر ملک و قوم کی فکر کرنے پر توجہ دلائے؟ وگرنہ سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریوںکا خود ادراک کرنا چاہیے کہ جب ہر ملک و قوم سیاسی و معاشی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد و متفق ہے تو ہم کیوں نہیں ہیں اور کیوں عدم برداشت کا مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ یہ وقت ملک و قوم کے لیے دن رات ایک کرنے کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button