ColumnRoshan Lal

عمران ، انصاف اور مریم ۔۔ روشن لعل

روشن لعل

عمران ، انصاف اور مریم

ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی بریت کسی طرح بھی معمولی واقعہ نہیں ۔ اس واقعہ پر ابھی تک جو ملا جلا رد عمل سامنے آیاہے، اس میں وہ جو ش و خروش ہر گزدکھائی نہیں دیا جو ماضی میں اس طرح کے غیر معمولی واقعات پر خوشی یا غصے کی شکل میں نظر آتا رہا ہے۔ اس واقعہ پرظاہر ہونے والے ملے جلے رد عمل میں اگر مسلم لیگ نون کے حامی مریم کی بریت کو انصاف کی فتح کہہ رہے ہیں تو پی ٹی آئی کے حمایتی عدل کی مات قرار دے رہے ہیں۔ اس معاملے میں راقم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نہ تو اس واقعہ میں انصاف کی سربلندی تلاش کی جاسکتی ہے اور نہ ہی عدل کی پستی کو ماپاجاسکتا ہے۔ ہمارے نظام انصاف کی نہ تو کبھی ایسی تشکیل ہوئی اور نہ ہی ہیئت بن سکی کہ اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جاسکیں۔ ملک میں رائج نظام انصاف ہر دور میں خاص اغراض و مقاصد، مصلحتوں اور تجربوں کا شکار رہاہے۔جہاں تک ایون فیلڈ ریفرنس میں پہلے مریم کی سزا اور اب رہائی کا معاملہ ہے تو یہ بات بلاجھجھک کہی جاسکتی ہے کہ اگر سزا دینے کے لیے کارروائی خاص اغراض و مقاصد اور مصلحتوں کے تحت کی گئی تھی تو بریت کے لیے بھی یہی عوامل کارفرما نظرآ رہے ہیں۔ یہ موقف ان تمام واقعات کو مد نظر رکھ کر بنایا اور پیش کیا گیا ہے جو پانامہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد رونما ہوئے اور مریم نواز پر ریفرنس دائر کیے جانے کا محرک بنے ۔ پانامہ سیکنڈل منظر عام پر آنے کے بعد یہاں ایک سیاسی گروہ نے شتر بے مہاروں کی طرح ایسے جلسے ، جلوسوں ، ریلیوں ، دھرنوں اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ
شروع کیاجیسے کسی نے اسے نہ روکے جانے کی ضمانت دے رکھی ہو۔ اس کے بعد عدالتیں دیگر تمام امور پس پشت ڈال کر پانامہ سکینڈل کو لے کر ایسے متحرک ہوئیں جیسے ان کی سوئی صرف اس ایک کیس اور ایک خاندان پر ہی اٹک گئی ہو۔
پانامہ سکینڈل میں دنیا کے 200 ملکوں کی سینکڑوں اہم شخصیات کا نام سامنے آیا تھا۔ ان شخصیات میں پچاس ملکوں کے 140 سیاستدان میں میاں نواز شریف بھی شامل تھے۔ پانامہ سکینڈل میں میاں نوازشریف سمیت پاکستان کے 444 لوگوں کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ ان لوگوں میں کئی دیگر سیاستدان، جج ، وکیل اور کاروباری لوگ شامل بھی تھے۔ پانامہ سکینڈل میںجن دوسرے پاکستانیوں کا نام آیا تھا ان سب کو چھوڑ کر کارروائیاں صرف میاں نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف کی گئیں۔یہ تمام کارروائیاں یہاں احتساب کے نام پر کی گئیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان کارروائیوں کے دوران میاں نوازشریف کی ذات اور ان کے بچوں کے کردار پر جو سوال اٹھائے گئے۔شریف فیملی اور اس کے
ترجمان اکثر مواقع پر ان کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے۔ ویسے تو عمران خان یوٹرن لینے کے لیے مشہور ہیں مگر پانامہ سکینڈل کے سلسلے میں ہونے والی کارروائیوں کے دوران میاں نوازشریف بھی اکثر یوٹرن لیتے ہوئے نظر آئے تھے۔ پانامہ سکینڈل کے سلسلے میں شروع ہونے والی کارروائیوں کے دوران پہلے عمران خان ، پھر ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں ، اس کے بعد جے آئی ٹی اور آخر میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر ماتحت عدالتیں متحرک ہوئیں ۔ ان تمام کارروائیوں کا نتیجہ میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی قید اور جرمانوں کی سز کی صورت میں برآمد ہوا۔
پانامہ سیکنڈل پر کارروائیوں کے دوران میاں نوازشریف اور مریم نواز کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کے لیے عمران خان نے خاص کردار ادا کیا۔عمران خان نے جو کردار ادا کیا اس کے لیے وہ یہ جواز پیش کرتے رہے کہ ان کی زندگی کا مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے میاں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف پرچم بلند کیا۔ جہاں تک میاں نوازشریف اور ان کے خاندان پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ اس طرح کے الزامات لگنے کا سلسلہ پانامہ سکینڈل سامنے آنے سے دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ پہلے شروع ہو گیا تھا۔ کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ میاں نواز شریف پر لگنے
والے کرپشن کے الزامات پرعمران خان کا رویہ ہمیشہ اسی طرح ناقدانہ اورمعتصبانہ رہا ہو، جس طرح گزشتہ دس برسوں اور خاص طور پر پانامہ سکینڈل کے بعد دیکھنے میں آیا۔ اگر میاں نواز شریف پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کے سلسلہ میںعمران خان کے ناقدانہ کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کردار کبھی بھی آزادانہ اور منصفانہ نہیں رہا۔
ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایک دوسرے پر کرپشن کے جو الزامات لگائے، ان کے ہم وزن ہونے کے باوجود گرفتاریاں صرف پیپلز پارٹی کے لوگوں کی ہو تی تھیں اور میڈیا پر اکثر تنقید کا نشانہ بھی صرف ان کو ہی بنایا جاتا تھا۔ ایون فیلڈ لندن کے فلیٹوں کی ملکیت کے حوالے سے شریف خاندان کرپشن کے جن الزامات کی زد میں آیا وہ الزامات لگانے کا آغاز بھی پیپلز پارٹی نے ہی کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ جب یہ الزامات لگنے شروع ہوئے اس وقت عمران خان کا رویہ کرپشن اور میاں نوازشریف کے لیے کیساتھا۔ جب پیپلز پارٹی والوں نے شریف فیملی پر یہ الزامات لگانے شروع کیے، ان ہی دنوں عمران نے میاں نوازشریف کو درخواست دے کر ان سے شوکت خانم ہسپتال کے لیے پلاٹ حاصل کیا تھا۔ ان دنوں میاں نوازشریف پر لگنے والے کرپشن کے الزامات عمران خان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔ میاں نواز شریف پر لگنے والے کرپشن کے الزامات نظر انداز کر کے عمران خان ان کے لیے اپنی رغبت کا اظہار یوں کرتے رہے کہ شوکت خانم ہسپتال میں بم دھماکے کے بعد جب بے نظیر بھٹو اظہار یکجہتی کے لیے ہسپتال پہنچیں تو عمران خان نے لاہور میں موجودگی کے باوجود وہاں جانے سے احتراز کیا مگر اگلے دن جب میاں نوازشریف ہسپتال گئے تو عمران خان وہاں پہلے سے موجود تھے۔ کرپشن کا خاتمہ کس حد تک عمران خان کی ترجیح ہے اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مہران بنک میں کرپشن کا معاملہ یہاں قریباً دودہائیوں تک اصغر خان کیس کے نام سے زیر سماعت رہا ، اس دوران عمران خان کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس کھلی کرپشن کی مخالفت کرتے ہوئے اصغر خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ عمران خان کے لیے کرپشن واقعی کوئی مسئلہ ہے یا محض سیاسی لیپا پوتی کا ذریعہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے جب حدیبیہ ریفرنس کو ناقابل سماعت قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا اس وقت عمران خان نے اس عدالتی فیصلے پر پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔
وطن عزیز میں آغاز سے موجودہ دور تک کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پرکی گئی کارروائیوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو صرف عمران خان اور مریم نواز جیسے سیاستدان اور بادشاہ گر اداروں کے لوگ ہی نہیں بلکہ ہمارا نظام عدل اور احتساب کے ادارے بھی کہیں سرخرو نظر نہیں آتے۔ یہ سب کچھ دیکھ کریہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ یہاں کرپشن سے زیادہ بڑا مسئلہ احتساب کا وہ بدنام زمانہ نظام ہے جسے کبھی بھی خط مستقیم پرچلنے نہیں دیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button