ColumnJabaar Ch

فائنل کال! .. جبار چودھری

جبار چودھری

جیون دھوپ چھاؤں کا نام ہے،زندگی زخم بھی دیتی ہے اورمرہم بھی۔گھاؤ جتنے بھی گہرے ہوں آخرکار وقت کے مرہم سے بھر ہی جاتے ہیں،لیکن جب زخم لگتے ہیں تولگانے والوں پر غصہ آنا فطری ہے۔اس لمحے دل کرتا ہے کہ ہر کسی کوتباہ کردیا جائے۔آسمان کوکھینچ کر زمین کے ساتھ لگادیا جائے۔ انسان ردعمل کے راستے پر نکل کھڑاہوتا ہے۔عمل کا راستہ ہوتو پلاننگ غالب رہتی ہے۔ حکمت عملی سے آگے بڑھا جاتا ہے لیکن رد عمل میں غلطیوں کی گنجائش ہی گنجائش۔عمران خان کو حکومت جانے کا گھاؤ بھی بہت گہراتھا۔ یہ گھاؤآہستہ آہستہ بھررہا ہے ۔ وہ اس وقت ردعمل کے فیز میں ہیں ۔وہ اپنی حکومت چھن جانے کا بدلہ پاکستان سے لینے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ان کے بدلے کی یہ تحریک حکمت سے دورلیکن غصے سے بھرپورہے۔
گھاؤتونوازشریف کا بھی کسی طورکم نہیں تھا۔عمران خان کی توصرف حکومت گئی ہے لیکن نوازشریف کی تو سیاست ہی چلی گئی تھی۔اُس وقت نوازشریف کا غصہ اور رد عمل دیکھنا ہو تو ان کی فیصلے والے دن کی پنجاب ہاؤس کی پریس کانفرنس دیکھ لیں۔نوازشریف کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ تھا۔ کھولنے کو بہت سے راز تھے۔ ان کو اقامے پر نکالا گیا تھا کیا ان کو نہیں پتا تھا کہ یہ اقامہ کہاں سے آیا تھا۔ کس نے دیا تھا اور کونسی سازش اس کے پیچھے تھی۔ کیا نوازشریف بھی کسی ملک کے خلاف کوئی سازشی بیانیہ اس وقت نہیں بنا سکتے تھے؟ لیکن کیا انہوں نے بنایا؟ نہیں۔ اس پریس کانفرنس میں سب کو امید تھی کہ اقتدارکی کرسی سے گرایا جانے والا نوازشریف آج پھٹ پڑے گا۔صحافی سوال پوچھتے رہے لیکن نوازشریف کا ایک ہی جواب تھا کہ ابھی کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں ہے ۔ وہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ انہوںنے اس وقت اتنا ہی غصہ کیا کہ پنڈی سے لاہور تک جی روڈسے آئے اورریلی نکال لی۔
نوازشریف کے اس طرح ردعمل کے بہاؤ میں نہ بہنے کی وجہ سے آج دوبارہ ملک پر ان کے بھائی کی حکومت ہے۔عمران خان پچھلے چھ ماہ میںبہت ساسفر طے کرچکے ۔آج ان کا غصہ پہلے دن جیسا نہیں ہوگا۔حالات بھی ویسے نہیں ہیں۔ سوچیں کہاں وہ امریکی سازش کا بیانیہ۔ وہ جلسوں میں لہرایاجانے والا خط۔ اس خط کی بنیادپر اسٹیبلشمنٹ کوبدنام کرنے کی مہم اور اب امریکی انتظامیہ سے روابط کیلئے دوڑدھوپ اور اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ ملاقاتیں اورڈیل کی خواہش اور کوشش۔
گزشتہ چھ ماہ میں جب سے وہ احتجاجی رتھ پر سوار ہوئے ہیں ان کے ہاتھ میں کیا آیا؟اپنے کارکنوں کی سپورٹ دوبارہ ملی۔درست۔لوگوں کو ان سے ہمدردی ہوگئی کہ واقعی عمران خان امریکہ کے سامنے ہی کھڑا ہوگیا ۔درست کہ ہم جذباتی لوگ ہیں آزادی ،غلامی اورغداری جیسے نعرے لبھاتے ہیں۔اس کے علاوہ کیا ان کی مرکزی خواہش پوری ہوئی ؟نہیں۔ان کویقین تھا کہ وہ امریکی خط لہرائیں گے تو پورا پاکستان ان کو دوبارہ وزیراعظم ہاوس چھوڑکر آئے گااور اس میں ذرا بھی تاخیر نہ ہوگی۔ الیکشن ہوں گے اور فوری ہوں گے اور ان کو دوتہائی اکثریت ملے گی ۔ وہ اکیلے اس ملک پر حکمران ہوں گے ۔نہ کوئی اتحادی نہ کوئی مجبوری۔پھر دس سال صرف کپتان۔
یہ خواہش انتہائی خوش کن لیکن حقیقت سے دور تھی۔گزرے چھ ماہ میں ان کی جھولی میں احتجاج اور جلسوں کے سوا فی الحال کچھ نہیں۔ ان کولگتا ہوگا کہ لانگ مارچ یا دھرنے ہی اقتدارتک لے جاسکتے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ دھرنوں کے نتیجے میں کبھی کوئی حکومت گھر نہیں گئی۔اگر احتجاج اور دھرنوں سے حکومت گرتی تو دوہزار چودہ سے بڑا اورکڑاحملہ اور کوئی تھا ہی نہیں۔اس وقت عمران خان اورڈاکٹرطاہرالقادری دونوں ڈی چوک میں۔ بپھرے ہوئے کارکن ۔ پی ٹی وی تہہ تیغ۔ پارلیمنٹ ان کے انگوٹھے کے نیچے۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پرقبضہ۔ قبریں اور کفن ۔ملک کا وزیراعظم محصور۔ حکومت عملاً مفلوج ۔دھرنے والوں کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت۔نوازشریف کو سبق سکھانے کا مشن ۔حالات ہر طرح سے حکومت وقت کے مخالف لیکن پھر بھی حکومت بچ گئی۔عمران خان کو ناکام واپس جانا پڑا۔
آج کے حالات اس سے قدرے مختلف۔ لوگ ان کے ساتھ ضرور شاید پہلے سے کچھ زیادہ لیکن اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل بلکہ عمران خان کے اپنےبیانات کی وجہ سے ان سے شدید ناراض بھی۔پچیس مئی کو وہ لانگ مارچ آزما چکے۔ناکامی دیکھ چکے اس وقت چھ دن میں واپس آنے کا کہہ کر گئے تھے چھ ماہ ہونے کو آئے ابھی بھی فائنل کال کی بات کررہے ہیں۔اس فائنل کال میں کیا ہوگا۔ احتجاج، لانگ مارچ اور پھر وہی دھرنا؟اس کے علاوہ اورکیا؟ دو ہزار چودہ میں دھرنے کی منزل ڈی چوک تھی کیا اب ڈی چوک تک رسائی ہوسکے گی؟اسلام آباد میں متحرک سپریم کورٹ موجودہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کی اسلام آباد ہائیکورٹ موجودہے۔ عمران خان پچیس مئی کو سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے عدالت کو ناراض کرچکے ہیں۔ وہ کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں موجود ہے اگر ڈی چوک کا رخ کرنے کی کوشش ہوئی تو سپریم کورٹ کا حرکت میں آنا طے ہے۔کیا عمران خان سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہوسکیں گے؟ نہیں۔اسٹیبلشمنٹ پوری طرح حکومت کے ساتھ اور حکومت اپنی سیاست داؤ پر لگاکر اس ملک کوبحران سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے۔آئی ایم ایف کا پروگرام جس طرح لیا گیا کہ ناک سے لکیریں نکالنا آسان تھا۔ اسلام آباد کے اطراف میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں۔پنجاب میں ان کی حکومت جو پچیس مئی کے برعکس لانگ مارچ کی سہولت کار ہوگی۔پولیس اپنی حفاظت میں مظاہرین کو شہروں سے نکالے گی۔خیبر پختونخوا، گلگت اور آزادکشمیرمیں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ عمران خان کی کال پربلارکاوٹ لوگ آجائیں گے۔ دھرنا بھی ہوجائے گا لیکن اگر دھرنا ڈی چوک کی بجائے ایچ نائن پارک میں ہوا تو ایسا دھرنا حکومت کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔ ایچ نائن وہ جگہ ہے جہاں مولانا نے دوہفتے دھرنا دیے رکھا لیکن مظاہرین کوپارک کے جھولے جھول کر واپس لوٹنا پڑا۔
میرے تجزیے کے مطابق عمران خان کے لانگ مارچ یا دھرنے سے انہیں کوئی ایسی کامیابی نہیں ملے گی کہ حکومت ان کو پلیٹ میں رکھ کرالیکشن کی پیشکش کردے ۔ہاں دھرنا دے دیا توعمران خان کیلئے ایک مستقل سٹیج کا بندوبست اسلام آباد میں ضرورہوجائے گا۔وہ ملک کے مختلف شہروں میں جاکرجلسے کرنے سے بچ جائیں گے۔اس کے علاوہ فی الحال مجھے اس لانگ مارچ سے کچھ زیادہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔باقی مستقبل میں کیا ہوگا یہ اللہ کریم کومعلوم۔میرا علم ناقص بصیرت محدود۔ واللہ اعلم بالصواب۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button