ColumnImtiaz Aasi

قیدی اورریاست کی ذمہ داری ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

اسلام نے جرم کرنے والوں کے لیے جہاں سزائیں مقرر کی ہیں وہاں قیدیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے۔سعودی عرب میں ایسے قیدی جو کسی سنگین جرم میں سزایافتہ نہیں ہوتے عیدین کے موقع پر ان کی رہائی کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔مخیر حضرات نہ صرف ایسے قیدی جن کی رہائی میں بہت کم وقت رہ گیا ہو وہ جرمانے اور دیت کی رقم کی عدم ادائیگی کے باعث جیلوں میں ہوتے ہیں ان کی رہائی کا انتظام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سعودی فرمانروا کی طرف سے خصوصی طور پر قیدیوں کے جرمانے اور دیت کی رقم کا بندوبست کرکے ان کی رہائی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
سعودی جیلوں میں قیدیوں کے لیے کھانے پینے کا بہت اچھا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں قیدیوں کے لیے ایسے کھانوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی حکومت کایہ اقدام اسلامی نقطہ نگاہ سے قیدیوں کے حقوق کی روشنی میں کیا جاتا ہے تاکہ اسلام نے قیدیوں کو جو حقوق دیئے ہیںکوئی قیدی ان سے محروم نہ رہ جائے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ سعودی حکومت قتل، منشیات اور زنا جیسے جرم کے مرتکب مجرمان سے کسی قسم کی رو رعایت نہیں کرتی بلکہ ایسے جرائم میں ملوث افراد کو بہت تھوڑے وقت میں سزائیں دے کر ان پر عمل درآمدکیاجاتا ہے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت کو ایسے قیدی جو دیت کی رقم کی عدم ادائیگی کے باعث جیلوں میں ہیں، دیت کی رقم کا انتظام کرنے کا حکم دیا تھا ۔کئی سال گذر گئے چیف جسٹس مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر آج تک کسی حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا بلکہ دیت کی عدم ادائیگی کے باعث قیدیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق اس وقت پنجاب کی مختلف جیلوں میں ایسے91قیدی ہیں جو دیت کی عدم ادائیگی کے باعث گذشتہ کئی سالوں سے جیلوں میں ہیں۔
تعجب ہے مذہبی تہواروں پر چیمبر آف کامرس کے عہدے داران اور دیگر مخیر حضرات جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس سے رابطہ کرکے ایسے مستحق قیدیوں کی فہرست طلب کیا کرتے ہیں اور عید سے قبل قیدیوںکے جرمانے اور دیت کی رقوم کی ادائیگی کرکے ان کی رہائی کو یقینی بنایا جاتا ہے لیکن حکومت کی طرف سے قیدیوں کی دیت کی رقم کی ادائیگی کے لیے ابھی تک کوئی بندوبست نہیں ہو سکا۔اس ضمن میں جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کی خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا جو کاروباری لوگوں سے رابطہ کرکے جرمانے اور دیت کی رقم کا انتظام کرتے ہیں۔
سعودی عرب میںقتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کرنے کا کوئی تصور نہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ مقتولین کے وارثا ملزم کو معاف کر دیں۔ہمارے ہاںایسے مجرمان جو قتل کے مقدمات میں موت کی سزا کے منتظر ہوتے ہیںاعلیٰ عدالتوں سے ان کی سزائوں کو عمر قید میں بدلنے کے بعد وہ دیت اور جرمانے کی رقم کی عدم ادائیگی کے باعث سالوں سے جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ اس وقت صوبے کی جیلوں میں ایسے بہت سے مجرمان ہیں جنہیں جیلوں میں کم سے کم پندرہ سال ہو چکے ہیں وہ دیت کی رقم نہ جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے سے پابند سلاسل ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال سے وہ قیدی دوچار ہیںجو اپنی سزائوں کا ایک تہائی حصہ کاٹ چکے ہوتے ہیں اوراندرون جیل ان کا کنڈکٹ تسلی بخش ہوتا ہے وہ پیرول کے مستحق ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے دور میںرہائی سے محروم رہے۔
پیرول ایکٹ بنایا گیا ڈائریکٹر پیرول کی آسامی کو اپ گریڈ کرکے ڈائریکٹر جنرل اوراس کے ساتھ اور کئی ڈائریکٹرز کی آسامیاں تخلیق کی گئی ۔محکمہ کے پاس اپنی عمارت کی موجودگی کے باوجود دفاتر کے لیے مال روڈ پر کرایہ پر عمارت حاصل کی گئی۔ پیرول رولز میں ترامیم کے لیے ڈرافٹ تین سال تک گھومتا رہا جس کے بعد نہ تو پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کے لیے سافٹ ویئر بنا اور نہ ہی پیرول پر کسی قیدی کو رہا کیا گیابلکہ ایسے فارمولے متعارف کرائے کسی قیدی کو رہائی نہ مل سکی۔
قانون میں ایک تہائی قید گذارنے والوں کو پیرول پر رہا کرنے کی گنجائش ہے تو ایسے قیدی جن کی رہائی میں چھ ماہ کا عرصہ رہ گیاہوپیرول پر رہا کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔جن قیدیوں کی رہائی میں چھ ماہ رہتے ہوں انہیں پیرول پررہا ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ قیدی جن کی قید میں تین چار سال رہتے ہوں وہی پیرول سے مستفید ہوسکتے ہیں۔تحریک انصاف کے دور میں ماسوائے چند قیدیوں کے کسی کو پیرول پر رہا نہیں کیا گیا گذشتہ حکومت کے مختصردور میں قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کا سلسلہ جاری رہا اب تک چالیس کے قریب قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا جا چکا ہے۔ حمزہ شہباز کے دور میں پیرول پانے والے قیدیوں کی حتمی منظوری صوبائی کابینہ سے لی جاتی تھی حالانکہ پہلے یہ منظوری دینے کا مجاز ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ہوتا تھا۔انگریز سرکار نے پیرول کا قانون ایسے ہی نہیں بنایا تھا اس کا مقصد قیدیوں کو پیرول پر رہائی دے کر ایک اچھا شہری بنانا مقصود تھا۔قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے پیرول صرف انہی قیدیوں کو دی جاتی ہے جو قتل ایسے غیر اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتے ہیںایسے قیدی جو چوری ، ڈکیتی، زنا، منشیات اور دیگر اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتے انہیں پیرول پر رہا نہیں کیا جاتا۔
عجیب تماشا ہے جو قیدی قانون کے مطابق رہائی کے حقدار ٹھہرتے ہیں انہیں رہا نہیں کیا جاتا اپنے طور پر فارمولے بنانے کا کوئی قانونی جواز تو نہیں تھا۔ ایک قابل ترین ایڈیشنل سیکرٹری کی موجودگی میں قیدیوں کو پیرول پر رہائی نہیں مل سکی۔البتہ موجودہ ایڈیشنل سیکرٹری پرزن کے دور میں پیرول پر قیدیوں کی رہائی کے لیے ہفتہ وار اجلاس کا انعقاد ہو رہا ہے۔پنجاب میں اس وقت کئی سو قیدی پیرول پر رہائی کے منتظر ہیں۔قیدیوں کو پیرول پر رہائی دینے سے جیلوں میں رہنے کے لیے گنجائش پیدا ہونے کے ساتھ قومی خزانہ پر مالی بوجھ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔سنٹرل اور ڈسٹرکٹ جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا قیدیوں اور حوالاتیوں کی موجودگی سے جہاں قیدیوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہاں جیل انتظامیہ کے لیے بھی بہت سے مسائل پید ا ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button