ColumnNasir Sherazi

پاکستان کا سرنگوں پرچم ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

دین اسلام میں قناعت کا حکم دیاگیا ہے، جو قناعت کرتے ہیں وہ دنیا کے کئی عذابوں سے دور ہوجاتے ہیں بصورت دیگر بچپن میں جو چیزیں دسترس میں نہ ہوں وہ خوابوں کا محور بنی رہتی ہیں، ان کی خواہش ختم نہیں ہوتی خواہ ان کا حصول ہی کیوں نہ ہوجائے۔ کچھ لوگ زندگی بھر دھن دولت اکٹھی کرتے رہتے ہیں دل نہیں بھرتا، کچھ لوگ گھروں پر گھر بنائے چلے جاتے ہیں، کچھ کاروبار کو وسعت دیتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی، سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی بے نام رہیں تو ناموری حاصل کرنے کی تگ و دوشروع ہوجاتی ہے، نامور ہوجائیں تو پھر اقتدار کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے جس میں کبھی تخت کبھی تختہ مقدر بن جاتا ہے۔
چھپن سے زائد ملکوں کی ملکہ الزبتھ چند روز بعد خاک ہوجائیں گی، انہیں زندگی میں سونے اور ہیرو جواہرات جڑے زیورات بہت پسند تھے، ان کے بچپن کی تصویریں دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ وہ دونوں چیزوں سے دور تھیں، ملکہ بننے کے بعد کی زندگی میں وہ اُس عمارت کا اکثر دورہ کرتی تھیں جہاں سونے کے ذخائر رکھے ہوئے تھے، یہ ذخائر کبھی بھی سو فیصد برطانیہ کی اپنی ملکیت نہ تھے بلکہ زیر تسلط ملکوں سے لوٹ کر لائے گئے تھے، انہی میں دنیا کا بیش قیمت ہیرا کوہ نور بھی ہے جو ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دیگر نوادرات کے ساتھ لوٹ کر برطانیہ پہنچا دیا گیا جسے پھر ملک برطانیہ کے تاج کی زینت بنادیا گیا، ملکہ یہ تاج پہن کر بہت خوش ہوتی تھیں اور کیوں نہ ہوتیں ، ہر زمانے اور تہذیب و تمدن میں اس کے ادب میں ہمیں ملکہ نظر آتی ہے جو بیش قیمت لباس پہنتی ہے اور قیمتی زیورات اس کے زیر استعمال ہوتے ہیں۔ برطانوی ادب اور تہذیب میں بھی ملکہ اہم کردار ہے، ملکہ الزبتھ جب چھوٹی سی بچی تھیں تو انہوںنے بھی اپنے بچپن میں مختلف کہانیوں میں ملکہ کا ذکر اس، اس کی کہانیاں ضرور پڑھی ہوں گی، تب وہ یقیناً کبھی سوچ بھی نہ سکتی ہوں گی کہ زندگی میں کبھی وہ خود بھی ملکہ بنیں گی، جسے کہانیوں میں موجود ملکہ کی طرح زندگی کی تمام آسائشیں و زیبائشیں میسر ہوں گی، وہ بیش قیمت زیورات بھی پہنیں گی اور ان کے سرپر تاج بھی ہوگا۔
دولت اور دنیاوی اسباب جمع کرنے کے شوقین مردو خواتین نے ضرور سنا ہوگا کہ قارون نامی بادشاہ جب مرا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے، وہ ساتھ کچھ بھی نہ لے جاسکا۔ آدھی دنیا کا فاتح سکندر اعظم جب مرنے کے قریب تھا تو اس نے وصیت کی کہ جب اُسے دفنایا جائے تو اس کے دونوں خالی ہاتھ کفن سے باہر رکھے جائیں تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ آدھی دنیا فتح کرنے والا بھی اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس جارہا ہے۔
قارون بادشاہ اور سکندر اعظم کی وفات کو صدیاں بیت گئیں، ان کی باتیں آج کے لوگوں کو کہانیاں لگتی ہوں گی لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جس کے قدموں میں کئی ارب ھا ڈالرکا سونا پڑا تھا جس کے تاج میں کروڑوں ڈالر کے ہیرے جڑے تھے وہ دنیا سے خالی ہاتھ گئی ہے۔
ایک دوست نے ملکہ الزبتھ کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملکہ کی تدفین سے قبل اگر ملکہ کا بیٹا اعلان کرے کہ ’’کسی نے ان کی اماں جان سے کچھ لینا ہے تو وہ بتاسکتا ہے‘‘تو اس اعلان کے بعد شاید اتنے طلب گار سامنے آجائیں کہ برطانیہ کے پاس کچھ نہ بچے، کیونکہ زیادہ تر لوٹ کا مال تھا، اپنے تو شاید کپڑے بھی نہ تھے، اُن کی روئی و دھاگہ بھی برصغیر سے لوٹ کر انگلستان لے جاتا تھا، اسی طرح گندم اور پٹ سن کے جہاز کے جہاز بھرکر لے جاتے تھے جو برطانوی عوام اور مختلف ملکوں پر قبضوں میں مصروف برطانوی افواج کے تصرف میں آتے تھے۔
پاکستان میں انگریزوں کے زمانے میں بچھائی گئی ریل کی پٹریوں کا بہت ذکر سنتے ہیں، یاد رہے کہ کراچی سے خیبر تک بچھائی گئی ریل کی پٹری یہاں بسنے والے غریب عوام کے لیے نہیں بلکہ لوٹ کا مال بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے بچھائی گئی تھی، مزید برآں اس کارخیر کی نگرانی کے لیے گورا صاحب کے لیے ان پٹریوں پر ٹرین بھی چلائی گئی۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، مختلف ملکوں پر قبضوں اور بندربانٹ میں جب جنگیں شروع ہوئیں تو ان کا ایندھن بننے کے لیے فوج کے لیے جوان بھی اسی خطے سے حاصل کیے گئے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، کئی مائوں کے بیٹے تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے آگ و فولاد کی بھٹی میں جھونک دیئے گئے، ہزاروں بہنوں کے بھائی کئی کئی سو کی تعداد میں اجتماعی قبروں میں دفن کردیئے گئے، ان قبروں پر گمنام سپاہی کا کتبہ لگا ہے جس پر ہر برس برطانوی جنرل، بادشاہ اور کبھی کبھار ملکہ پھول چڑھاتی نظر آئی۔ ایک کے بعد دوسری، پھر تیسری اسی طرح کئی ملکائیں آتی رہیں گی ۔
ہمیں برطانوی نصاب کے مطابق پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ جنگ عظیم دوم اپنی انتہا پر تھی، جرمن
فوجیں اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنے قدموں تلے روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں، ایسے میں ایک تجزیاتی کانفرنس میں انگلینڈ کی فتح و شکست کا جائزہ لیا جارہا تھا، مختلف سوالوں کے جواب میں برطانوی حکمران کا جواب تھاکیا برطانوی تعلیمی اداروں میں تدریس کا سلسلہ جاری ہے، جواب ملا جی ہاں، پھر پوچھا کہ برطانوی عدالتیں عوام کو انصاف مہیا کررہی ہیں، جواب ملا جی ہاں، اس پر فخر سے سینہ ٹھونک کر کہاگیا کہ اگرایسا ہے تو پھر برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، مکروفریب کے پیکر برطانوی سیاست دانوں اور لیڈروں نے کسی بھی سطح پر اس بات کا اعتراف نہ کیا کہ ہزاروں میل لمبے محاذ جنگ پر برصغیر کے مسلمان اور دیگر قومیتوں کے سپاہی بے دریغ اس جنگ کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں جو ان کی جنگ نہیں، جنگ جیت کر بھی انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا، شکست کی صورت تو وہ جرمن افواج کے انتقام کا نشانہ بن جائیں گے، برطانوی تعلیمی اداروں میں اگر تعلیم جاری رہی اور انصاف ملتا رہا تو یہ بھی اس بہادر سپاہ کی قربانیوں کے طفیل تھا جس نے جنگ میں نظر آنے والی ممکنہ شکست کو فتح میں تبدیل کردیا۔
جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس خطے کی بچ جانے والی سپاہ کے حصے میں تانبے کے کچھ میڈل اور بیس روپے سے لیکر پچاس روپے تک فی کس کے حساب سے پنشن کے سوا کچھ نہ تھا، کچھ لوگوں کو خطابات بھی دیئے گئے لیکن منافع میں وہ رہے جو گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے ہر گھر سے نوجوانوں کی جبری بھرتی کا فریضہ انجام دیتے رہے، انہیں جاگیریں دی گئیں وہی بعد ازاں ہمارے حکمران بنے، آج ان کی دوسری اور تیسری نسل ہماری حکمران ہے۔
خطے کے مسلمانوں کی آزمائش کا ایک اور دور جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد شروع ہوا، برطانیہ اور اس کے صنعتی ادارے کھنڈر بن چکے تھے، انہیں ازسرنو کارآمد بنانے کے لیے ایک مرتبہ پھر اسی خطے کے مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا، انہوں نے برطانیہ کی تعمیر نو میں کردار ادا کیا، وہ مزدور بنائے گئے، ان کی آنے والی نسل بھی مزدور ہی رہی، ان میں بہت کم برطانیہ میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔ برطانیہ کے تمام بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کو غور سے دیکھیں تو ان کی بنیادوں میں آپ کو اپنے اجداد کے لہو کی سرخی جھلکتی نظر آئے گی، برطانیہ کے ہاتھوں پاکستانیوں کا استحصال جاری ہے اور ابھی طویل عرصہ تک جاری رہے گا کیونکہ برطانوی ملکہ کی موت پر پاکستان کا پرچم سرنگوں ہے، قائد اعظمؒ کی وفات کسی کو یاد نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button