Ahmad NaveedColumn

ایک نظر سیاستدانوں کی غلطیوں پر ۔۔ احمد نوید

احمد نوید

ایک سیاستدان کب ، کہاں اور کیوں بہت بڑی غلطی کرتا ہے ۔ یہ بہت دلچسپ سٹڈی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد اپنی صدارت کے پہلے سال میں امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو مفت ہوائی سفر کی سہولت دینے اور اُنہیں امریکہ بھر میں مختلف علاقوں میں آباد کرنے کیلئے بہت سی سہولتیں دیتے ہوئے گزارا۔ جو بائیڈن کے اس عمل سے ایک تاثر اُبھرا کہ یہ صدر بیرونی لوگوں سے محبت کرتا ہے اور امریکیوں سے نفرت ۔ یہ اور اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں جو سیاستدانوں کو کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی سے دوچار کرتے ہیں ۔
ماضی سے دور جدید تک سیاستدانوں اور غلطیوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ کچھ سیاستدانوں کی غلطیاں اتنی خوفناک ہیں کہ اُن غلطیوں نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی ۔یورپ میں نپولین جیسا طاقت ور بادشاہ شاید ہی گزرا ہو۔ لیکن نپولین بونا پارٹ کی یہی طاقت اور اُس کا متکبرانہ مزاج اُس کی بادشاہت کے زوال کا باعث بنا۔ فرانس سے نکل کر جب نپولین نے اٹلی ، جرمنی اور ہالینڈ کے بہت سے حصوں پر قبضہ کر لیا تو اُس نے اعلان کیا کہ وہ جلد دنیا کا مالک بن جائے گا۔ روس پر حملہ نپولین بونا پارٹ کی بہت بڑی غلطی تھی، اس حملے میں چھے لاکھ کی فوج میں سے چار لاکھ روس میں بے رحم سردی ، ٹھنڈ اور فاقہ کشی سے ہلاک ہو گئے ۔ فرانس کی عوام جو کبھی نپولین کو ناقابل تسخیر سمجھتی تھی۔ اُسی عوام نے فرانس کا یورپ سے مختلف ممالک کے ساتھ جنگوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نپولین بونا پارٹ کو حکومت سے دستبرداری پر مجبور کیا۔
برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون نے 1999 سے 2002کے درمیان برطانیہ کا ساٹھ فیصد سونا جو قریباً چار سو ٹن بنتا تھا ، 275ڈالر فی اونس کے لحاظ سے فروخت کر دیا تھا۔ ایسا کرنے کی وجہ برطانوی وزیراعظم کے پاس یہ تھی کہ گزشتہ دو عشروں سے سونے کی قیمت گر رہی تھی ۔ لیکن برائون کے سونا فروخت کرتے ہی سونے کی قیمت میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا اور 2009تک گیارہ سوڈالر فی اونس سے بھی تجاوز کر گیا ۔ برطانوی وزیراعظم کی یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ نوے کی دہائی میں یورپ کے بہت سے ممالک نے یہ سوچ کر سونا خریدا تھا کہ یہ مستقبل میں مہنگا ہو گا اور بہت منافع دے گا۔
پاکستان بھی اگر ماضی میں ساٹھ سے اسی کی دہائی تک سونا خرید کر ذخائر جمع کر لیتا تو شاید آج پاکستان کی بھی قسمت چمک اُٹھتی ۔جرمن صدر
ہنڈن برگ اور جرمنی کے مشہور سیاستدان فرائز وان یاپین نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنایا تو پانچ سال بعد دنیا ، تاریخ کی سب سے خونریز جنگ میں ڈوب چکی تھی ۔ یاپین نے جب اپنی سوانح عمری لکھی تو اُس نے تسلیم کیاکہ جرمن صدر کو ہٹلر کی بطور چانسلر تعیناتی کیلئے سفارش اُس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
امریکی صدر ابراہم لنکن نے بھی اپنی زندگی میں ایک فیصلہ کیا تھا جو اُن کی زندگی کی بہت بڑی غلطی بن سکتاتھا مگر اُن کی قسمت اچھی تھی ۔ انتخابی مہم کے دوران ایک 11سالہ بچی گریس بیڈل نے ابراہم لنکن کو خط لکھ کر تجویز دی کہ وہ داڑھی بڑھائیں ۔کیونکہ اُن کا چہرہ بہت پتلا ہے ۔ ایک 11سالہ بچی کے کہنے پر اتنا بڑا فیصلہ ابراہم لنکن کو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔ یہ فیصلہ ابراہم لنکن کے انتخابی نتائج کوبہت بُری طرح متاثر کر سکتا تھا۔ بہرکیف ابراہم لنکن نے بہت بڑا فیصلہ کیا اور 11سالہ گریس بیڈل کے کہنے پر داڑھی رکھ کر الیکشن لڑا اورتاریخی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ ابراہم لنکن امریکی صدر بننے کے بعد اُس گیارہ سالہ بچی کے گھر شکریہ ادا کرنے کیلئے بھی گئے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بارے میں بھی ایک تاثر موجود ہے کہ انہوں نے بھی اپنی سیاسی زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں ۔ ممکن ہے کہ اُنہیں لانے والے بھی اِسے اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں، لیکن فی الحال ہم سیاستدانوں کی غلطیوں کا جائز ہ لے رہے ہیں ۔
عمران خان سیاست میں تبدیلی اوربگاڑ دور کرنے کا نعرہ لے کر آئے تھے ۔ انہوں نے اپنی جماعت کا نام بھی تحریک انصاف رکھا ۔ وہ سماج میں تبدیلی چاہتے تھے ، نظام میں تبدیلی کے خواہش مند تھے ، لیکن اُن کے بہت سے غلط فیصلوں نے نہ صرف اُن کی شخصیت کو متضاد بنا دیا بلکہ اُن کی سیاسی دانش مندی پر بھی سوال اُٹھنے لگے ۔
عمران خان نے اپنی سیاسی پارٹی میں بیشتر منظور نظر اور منظور دل اُن لوگوں کو بنایا ہوا ہے ،جو ماضی میں کئی پارٹیاں بدل کر اقتدار کے لالچ میں اُن تک پہنچے۔ عمران خان کو اگر یہ لگتا ہے کہ وہ اُن کے نظریے کے محافظ ہیں تو یہ اُن کی بہت بڑی غلطی فہمی ہے ۔
سیاست میں صبر ، حوصلہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔عمران خان کی اپنی ذات میں اُن تینوںچیزوں کی شدید کمی ہے ۔ عمران خان صاحب تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیںیہی وجہ ہے کہ وہ اکثر پریس کانفرنسز میں بہت سے سوالوں کے جواب دئیے بغیر لوٹ جاتے ہیں ۔
2018میں حکومت ملنے کے بعد سے عدم اعتماد کی کامیابی تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بیڈ گورننس کی اچھی خاصی مثال قائم کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ عوام میں تو دکھائی نہ دئیے البتہ ہیلی کاپٹر میں آسمان پر یا بھرپور پروٹوکول کے ساتھ گاڑیوں کے ہجوم میں دکھائی دئیے ۔وزیراعظم ہائوس ، ایوان صدر اور گورنر ہائوسز کو بھی عمران خان کالجز اور یونیورسٹیاں بنانے میں ناکام رہے ۔ خان صاحب کے وزرا خواہ وہ مرکز میں تھے یا صوبائی حکومتوں میں ، سب کے سب طاقت کے نشے میں دھت ، نرم مزاجی اور فہم و فراست سے ماورا تھے ۔ عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے محدود ہوئے۔ کروڑوں نوکریاں، لاکھوں نئے گھر ، انصاف کے نظام میں اصلاحات ، یہ سنہرے وعدے تھے جو مکمل نہ ہوسکے ۔
اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کے بعد حالانکہ( دو صوبوں میں ابھی بھی اُن کی پوری طرح حکومت ہے) عمران خان ایک نئے راستے پر چل پڑے ہیں ۔ یہ بہت خطرناک راستہ ہے ۔ اداروں کو جلسوں میں کھلے عام دھمکیاں اور چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری پر کھلے عام تنقید ی تبصرے نہ ملک کیلئے بہتر ہیں نہ خود خان صاحب کی شخصیت کو زیب دیتے ہیں۔ لہٰذا چیئرمین پاکستان تحریک انصاف یا کسی بھی سیاستدان کو پارٹی پالیسی یا ذاتی بیان بازی میں اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے، جہاں آپ پر ناقابل بھروسہ ہونے کا سوال اُٹھنے لگے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button