Ali HassanColumn

ایم کیو ایم میں اختلافات .. علی حسن

علی حسن

ابھی ایم کیو ایم ضمنی انتخا ب کی کراچی کی ایک نشست پر شکست کے معاملہ پر آپس میں ہی الزامات کی تکرار اور تنازعہ میں مبتلا تھی کہ کامران ٹیسوری کی شمولیت اور براہ راست رابطہ کمیٹی میں تقرری اور ڈپٹی کنوینر کے عہدے پر تقرری نے ایک اور تنازعہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم اگست 2016 سے ہی ایسی صورت حال سے دوچار ہے جس کی وجہ سے وہ مثالی پارٹی جو ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت کہلاتی تھی، اس حد تک سکڑ گئی ہے کہ اس کی کوئی سنتا ہے اور نہ ہی وہ کچھ کر پاتی ہے۔ کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض بھی ہوگئے اور سر دست ایک سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے تو پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے ۔ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد پہنچ جائے گا۔ وہ پارٹی قیادت کے حالیہ فیصلوں سے مطمئن نہیں ہیں اور غلط فیصلوں پر بطور احتجاج استعفیٰ دے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر شہاب امام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی ہم خیال بھی پارٹی فیصلوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ کشور زہرہ رابطہ کمیٹی کی رکن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ خاموشی سے کیے گئے فیصلوں سے متفق نہیں۔ چند لوگوں کی خواہشوں کو رابطہ کمیٹی، جنرل ورکرز اجلاس کی رائے کہا جا رہا ہے جو سراسر بے بنیاد ہے۔ خالد مقبول کے اس فیصلہ سے کئی او رلوگ بھی متفق نہیں ہیں لیکن خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے
ہیں۔ کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ پارٹی میں ان کی شمولیت کی توثیق خالد مقبول صدیقی نے کی ہے اور ارکانِ رابطہ کمیٹی کے اعتراضات پر ایم کیو ایم ہی مؤقف دے گی۔ایم کیو ایم میں شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ فیصلے کر لینے کے بعد رابطہ کمیٹی سے توثیق کرا لی جاتی ہے۔ ایک زمانہ میں یہ توثیق تو صرف برائے نام ہی ہوا کرتی تھی کہ فیصلہ یا فیصلے پارٹی کے بانی کیا کرتے تھے ۔ ان کے فیصلوں پر کسی کو اعتراض کرنے کی ہمت اور جرأت ہی نہ ہوتی تھی۔ سب کا جواب ایک ہوتھا تھا کہ ’’ جو فیصلہ بھائی کا‘‘۔ کامران ٹیسوری کے معاملہ پر خالد مقبول، وسیم اختر، صادق آفتاب وغیرہ نے فیصلہ کیا اور لوگوں کو زبانی طور پر آگاہ کر دیا گیا۔ کامران کی شمولیت کے معاملہ پر شدید رد عمل بھی ہوا۔ فاروق ستار کے حامی کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہی تھا تو فاروق ستار کامران ٹیسوری کی پارٹی میں شمولیت پر کیا غلط کر رہے تھے کہ اعتراض کیا گیا تھا اور کامران کی شمولیت قابل قبول نہیں تھی۔ اگر اس وقت قابل قبول نہیں تھی تو اب کس طرح قابل قبول ہو گئی۔ کامران ٹیسوری ایک وقت میں فنکشنل لیگ میں رہ چکے ہیں۔ پیسے والے شخص ہیں اسی لیے سیاست کے ذریعے مقام بنانا چاہتے ہیں۔
2016 کے بعد پارٹی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی۔ فاروق ستار کامران ٹیسوری کی پارٹی میں شمولیت کے معاملہ پر ہی خالد مقبول اور دیگر ساتھیوں کی مخالفت کی وجہ سے ’’بہادر آباد ‘‘ پارٹی سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔ نائن زیرو پر پابندی کے بعد کراچی کے علاقہ بہادر آباد میں پارٹی کا دفتر قائم کیا گیا تھا ۔ خالد مقبول صدیقی قائم مقام کنوینر مقرر ہو ئے تھے ۔24 رکنی رابطہ کمیٹی سے توثیق لی گئی لیکن اس کے باوجود پارٹی میں یکجہتی نہیں رہی۔ اختلاف رکھنے والے بعض افراد تو یہ الزام لگاتے ہیں کہ پارٹی پر چار پانچ افراد نے قبضہ کر لیا ہے اور اپنا حکم چلاتے ہیں۔ مختلف مواقعوں پر ایسے فیصلے جو اختلاف کا سبب بنے، بات تلخ کلامی سے نکل کر سر پھٹول تک پہنچے۔ بیچ بچائو کرایا گیا۔ ٹیسوری کے معاملہ پر بحث کیلئے رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، جسے خالد مقبول نے اپنی سازی طبیعت کی وجہ
سے ملتوی کردیا۔ اب تو ’’کپتان میں ہوں‘‘کی یاد دہانی ایک تکرار بن گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سب لوگوں کو یکجا رکھنے کا کوئی اور طریقہ نہیں بلکہ مفادات کا حصول ہی ان کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ وہ مفادات بھی انفرادی ہوتے ہیں۔ اجتماعی مفادات کا دور تو اب نہیں رہا۔
ویسے بھی پارٹی اپنی افادیت کے بعد اہمیت بھی کھو بیٹھی ہے۔ عام لوگ بھی پارٹی کے موجودہ رہنمائوں سے بد ظن اور منحرف سے ہو گئے ہیں۔ 2018 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے ہی ان لوگوں کو جو پارٹی چلارہے تھے، اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ پارٹی اپنی اپیل کھو چکی ہے۔ پارٹی جن لوگوں کی ترجمانی کی دعویٰ دار تھی یا ہے، جن لوگوں کے حقوق کیلئے جدو جہد کی بات کرتی رہی ہے، پارٹی کے رہنماء آج جو کچھ کر رہے ہیں ، کیا انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے درمیاں اختلافات کا خمیازہ وہ تو بھگتے گے ہی لیکن جن کی ترجمانی کا دعوی کیا جاتا ہے وہ تباہی سے دو چار ہوجائیں گے۔ ویسے بھی ان لوگوں کو جو حال و حشر ہے وہ دیدنی ہے، صرف قابل ذکر ہی نہیں۔ پارٹی کو عام انتخابات میں 1988 سے لے کر اب تک ووٹ دینے کے باجود انہیں با عزت زندگی حاصل ہوئی ، نہ ہی برابری کا درجہ حاصل ہوا، نہ ہی سہولتیں ملیں۔ وجہ کیا تھی اور ہے، سب پر عیاں ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک خبر گشت کر رہی ہے کہ حکومت سندھ نے ایم کیو ایم کمیٹی قائم کی ہے جو یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ کراچی میں ایک سال سے قیام کرنے والے لوگوں کو ڈومیسائل دے دیا جائے گا۔ کوٹہ سسٹم پر عمل درآ ٓمد نہ ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم جن کی ترجمانی کی دعویٰ دار تھی،سرکاری ملازمت کے حصول کا موقع کھو بیٹھے ہیں۔ یہ مرے پر سو درے مارنے کے برابر ہوگا کہ کراچی میں ایک سال سے قیام کرنے والے لوگوں کو بوجوہ ڈومیسائل دے دیا جائے گا۔
کراچی کے علاقے عزیز آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کا آبائی گھر میں جسے نائن زیرو کہا جاتا ہے اور جو 2016 تک پارٹی کا ہیڈ کوارٹر تھا ، آگ لگ گئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق نائن زیرو میں موجود ایئرکنڈیشنرز میں ایل پی جی طرز کی گیس کا اخراج ہوا اور کمرے بند ہونے کی وجہ سے گیس جمع ہوگئی۔بم ڈسپوزل یونٹ کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق برابر والے کمرے میں بجلی کے بورڈز اور تار کے گچھے لٹک رہے تھے، بجلی کے تار میں شارٹ سرکٹ ہوا اور کمروں میں پہلے سے گیس موجود تھی جس کی وجہ سے زوردار دھماکہ ہوا جس سے مکان کے فرنٹ سائیڈ کی کھڑکیاں اور دروازے نکل گئے اور بجلی کے تاروں کی وجہ سے آگ لگ گئی۔واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو کو 6 سال قبل اگست 2016 میں بند کر دیا گیا تھا۔متحدہ ذرائع کے مطابق اس پراپرٹی کی بجلی اور گیس کی سپلائی کافی عرصے سے منقطع ہو چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button