ColumnImtiaz Ahmad Shad

بدترین شخص ! .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

انسان فطرت کے لحاظ سے تنہا نہیں رہ سکتا۔ اسے امور کی انجام دہی کیلئے اپنے ایسے انسانوں کا ساتھ درکار ہے۔کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان کو کہیں سے کوئی دھوکہ ملے یا پریشانی تو فیصلہ کرتا ہے کہ آج کے بعد ان افراد سے رابطہ نہیں رکھوں گا مگر حالات کے تیز تھپیڑے اسے پھر ان لوگوں کے پاس لے آتے ہیں جنہیں اس نے چھوڑنے کا عہد کر رکھا ہوتا ہے۔دنیا کا نظام انسانی سوچ سے منفرد ہے ۔اگر اللہ اوررسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنا لیا جائے تو انسان اسے بھی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے جو پہلے اس سے پوشیدہ ہے۔عادتیں اور خصلتیں جب پختہ ہو جائیں تو ایسے افراد کو سیدھی راہ دکھانا آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے۔ابن العربی کہتے ہیں کہ کوے کووں اور ہنس ہنسوں کے جھنڈ میں اچھے لگتے ہیں۔عالم جب جاہلوں کی صحبت لینا شروع کر دے تو علم اس سے پرواز کر جاتا ہے اور وہ ابو الجہل بن جاتا ہے۔ایسے میں ممکن نہیں کہ اس کی اصلاح کی جا سکے۔انسانی شخصیت پر اس کی صحبت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔
انسان کی شخصیت، اس کے عادات واطواراور افعال اورکردارسے نمایاں ہوتی ہے۔ انسان فطری طورپراپنا مصاحب اور دوست بھی انہی کو بناناپسند کرتاہے جو معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اوربرے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے۔ فارسی مثل مشہورہے’’صحبت طالع تراطالع کند‘‘، اور جاپانی مقولہ ہے’’جب کسی شخص کا کردارتم پرواضح نہ ہوتو اس کے دوستوں کو دیکھو‘‘۔ اس سے اس کے معیارکا پتا چلتاہے اس لیے معمولی سے معمولی عقل وشعور رکھنے والا انسان کبھی برے لوگوں کو ا پنا دوست بناناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی فحش باتوں اوربرے کاموں سے بچنے کیلئے اس سے دوری اختیارکرنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتاہے۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراُس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان)۔ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی ﷺ نے جہاں اچھے لوگوںکے اوصاف اورخوبیاں بیان کی وہیں برے اورناپسندیدہ لوگوںکی بھی پہچان بتادی تاکہ ایسے لوگوںسے دوررہاجائے ۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہروہ انسان جس میں کسی طرح کی خیرکی امید نہ رکھی جائے حتیٰ کہ اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوںتووہ شخص بدترین انسان مانا جائے گاکیونکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فسادوبگاڑکا سبب بنے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اسکے شرسے لوگ محفوظ ہوں۔ (ترمذی،باب الفتن)۔بسااوقات انسان کسی برے شخص سے ملتا ہے مگراس کے ساتھ بہتر انداز سے پیش آتاہے،اس سے گمان ہونے لگتاہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردہوگا حالانکہ وہ بدترین انسان ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺنے ایسے شخص کی وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے ملاقات کی اجازت چاہی، آپﷺنے فرمایاکہ اسے آنے کی اجازت دیدو،ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ وہ معاشرے کا براانسان ہے۔جب وہ داخل ہواتوآپ نے ان سے نرم گفتگوکی، اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول! آپ ﷺنے تواس کے سلسلے میں ایسا ایسا فرمایاتھا جبکہ آپ نے اس سے گفتگومیں نرمی اختیارکی۔ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرو منزلت میں سب سے براانسان وہ ہے جس کے شراور فحش کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری بنالیں۔‘‘(بخاری)۔نبی کریم ﷺنے فرمایا: تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بدترین انسان انہیں پائوگے جو دورخی اختیار کرتے ہیں۔(بخاری)۔آپﷺنے اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں فرمائی: یقیناًبدترین شخص وہ ہے جودومنہ رکھتاہو،کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کرجاتاہے اورکچھ لوگوںکے پاس دوسرا منہ لے کرجاتاہے۔ (مسلم) ۔ امام غزالیؒ نے دوطرفہ باتیں بنانے والے کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے جبکہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔ قیامت کے دن ایسے شخص کے پاس دوانگاروں کی زبان ہوگی۔ ایسے شخص سے متعلق نبی ﷺکا ارشاد ہے:جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتا ہوگا ،قیامت کے دن اس کے منہ میں دوانگاروںکی زبانیں ہوںگی۔ (ابوداود)۔ آپ نے ایسے بدترین شخص کی مزید وضاحت فرمائی:اللہ کے بندوں میں برے وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں،محبت کرنے والوںکے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں اور بھلے لوگوںمیں عیب تلاش کرتے ہیں۔(مسنداحمد)۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے بدترین شخص کی تین علامتیں بتائی ہیں: ایک یہ کہ وہ چغل خوری کرتا ہے تاکہ ایک شخص کی عیب جوئی کے سبب دوسرااس سے بدگمانی کا شکار ہوجائے۔ ایسے شخص کے متعلق ایک دوسری حدیث میں فرمایا:چغل خورجنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری ومسلم)۔ دوسرا وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین محبت واخوت کو اختلاف وانتشارکے ذریعے تارتارکرنے کی کوشش کرتاہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جواس فکرمیں لگارہتاہے کہ کسی نیک آدمی میں کوئی عیب نکال کر اسے پھیلادے تاکہ لوگوں میں اس کی رسوائی ہو۔بہ الفاظ دیگروہ دوسرے انسانوں کی رسوائی کیلئے کوشاںرہتا ہے۔ تمام انسانوں کاخالق و مالک اللہ ہے۔ وہی انسان کی ضرورتوںکوپوری کرتاہے، لہٰذاانہیں اسی کے سامنے سجدہ ریزہونا چاہیے نہ کہ اللہ کے بالمقابل کسی دوسرے کوحاجت رواتسلیم کیا جائے، جیساکہ ہمارے معاشرے میں ہر سو دیکھنے کوملتاہے۔ غیر اللہ سے حاجتیں پوری کرنا اور اللہ سے منہ موڑنا ،یہ بندے کی سب سے بڑی سرکشی ہوگی،ایسے شخص کو بھی حدیث میں بدترین انسان کہاگیاہے۔ اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے بھی ہیں جودوسروں کی دنیا بنانے میں بھول جاتے ہیں کہ وہ جوکچھ کرر ہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط؟ اس طرح ان کی آخرت تباہ وبربادہوجاتی ہے۔ ان کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبے میں برے لوگ وہ ہوںگے جو دوسرں کی دنیا بنانے میں اپنی آخرت خراب کرلیں گے۔ قیامت کی علامتوں میں سے ہے، برائیاں عام ہوجائیں گی اوران کا اتناچرچاہونے لگے گا کہ لوگ برے کاموں کوبرانہیں سمجھیں گے، اس طرح برے لوگوں کی کثرت ہوجائے گی۔اسی بات کی پیشن گوئی کرتے ہوئےپیارے نبیﷺنے ارشادفرمایا: برے لوگوں پر قیامت کا وقوع ہوگا۔(بخاری)۔ مذکورہ تمام احادیث سے ایسے بدترین لوگوں کی شناخت بتائی گئی ہے جس کے متعلق آپ نے شرالناس، شرارالناس، شرارعباداللہ وغیرہ کہہ کرو ضاحت فرمائی ہے۔ ان کے علاوہ جھوٹ،غیبت،بدکاری وبداخلاقی وغیرہ جیسے عمل کے مرتکب لوگ بھی بدترین انسان ہیں کیونکہ ایسے لوگوں سے بھی خیرکی توقع نہیں کی جاتی ۔موجودہ حالات میں ہم غور کریں تو ایسے کئی کردار جو ہمارے گرد پائے جاتے ہیں،انسان کو بہت کچھ اپنے اندر سے بھی مل جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button