ColumnImtiaz Aasi

نئی حکومت ، نئے چیلنجز

امتیاز عاصی
ملک میں عام انتخابات کا مرحلہ طے ہونے کے بعد نئی حکومت کو جن چیلنجز کا سامنا ہوگا ان میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ آئی ایف ایم سے کم از کم چھ ارب ڈالر کا حصول ہے۔ اس مقصد کے لئے آئندہ دو ماہ میں مذاکرات ہوں گے۔ ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لئے اربوں ڈالر قرض کی ادائیگی درکار ہو گی اس کے ساتھ عوام کو غیر یقینی طور پر بہت زیادہ مہنگائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ قطع نظر اس کے حکومت کا دورانیہ کتنا ہوگا عوام کو مزید مہنگائی سے بچانے کے لئے حکومت کو ایک اور امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ یہ سیاسی رہنمائوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا جا رہا ہے اس کے باوجود اقتدار میں آنے والی حکومت بجائے قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی انقلابی اقدامات کرے اس کا مطمع نظر آئی ایم ایف سی قرضوں کا حصول ہوتا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں سیاسی رہنمائوں اور بڑے بڑے لوگوں نے کھربوں روپے قرض لے کر واپس نہیں کئے حالانکہ اس کا نہ کوئی قانونی اور نہ اخلاقی جواز بنتا تھا۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم تھے انہی کے ہاتھ ملک و قوم کی تقدیر حوالے کرنے سے ملک ترقی کر سکے گا؟ کسی ملک کی معیشت کا دارومدار اس کی برآمدات، ترسیلات زر۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہوتا ہے گزشتہ سال ترسیلات زر میں تین ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ ڈالر کے انٹربینک ریٹ اور عام مارکیٹ میں ریٹ میں تیس روپے کا فرق تھا ۔ظاہر ہے تارکین وطن دن رات ملک سے باہر رہ کر محنت مزدوری کرکے کما کر وطن بھیجتے ہیں وہ مالی خسارہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں لہذا ڈالر کے ریٹ میں تیس روپے کے فرق سے لامحالہ تارکین وطن ہنڈی کا ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام سے بیرونی سرمایہ کار ادھر کا رخ نہیں کرتے ۔ وطن عزیز کے بہت سے سرمایہ کار اپنی انڈسٹری بنگلہ دیش اور چین میں منتقل کر چکے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے ہمیں آئی ایف ایم جیسے مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ ہم ترسیلات زر کا موازنہ بھارت سے کریں تو ہمارا ملک اس سلسلے میں بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ عمران خان کے دور میں تارکین وطن نے ریکارڈ سرمایہ بھیجا شائد اس کی بڑی وجہ خان کا تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کے لئے اقدامات اور ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ ترسیلات زر میں اضافے کا باعث بنے۔ نگران حکومت کے دور میں حوالہ اور ہنڈی کے خلاف کریک ڈائون سے ڈالر کی قیمت میں مستحکم ہونے میں خاصی مدد ملی ہے لہذا نئی حکومت کو نگران حکومت کی تقلید کرتے ہوئے ڈالر کی سمگلنک روکنے کے لئے دیرپا اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی وگرنہ پہلے کی طرح ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ جاری رہی تو ملک میں معاشی استحکام کبھی نہیں آئے گا۔ حکومت کو الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی شکایات کی روشنی میں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرکے سیاسی افراتفری کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ملک میں جلسے جلوس اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری جو پہلے سے روکی ہوئی ہے کی امید نہیں رہے گی ۔ سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے لئے واقعی مخلص ہوں تو حکومت کو وزراء اور ارکان اسمبلی کی غیر ضروری مراعات فوری طور پر ختم کرنی چاہئیں۔ وفاق کے اداروں میں فالتو عملے کو سرپلس پول میں بھیج کر جن محکموں میں ضرورت ہو ملازمین کو ان محکموں میں کھپانا چاہیے۔ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں جیسا کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز ہیں ملازمین کو ملنے والی غیر ضروری مراعات کو فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ وزیراعظم سمیت وزراء کے بیرون ملک غیر ضروری دوروں کو ختم کرنا ہوگا۔ جیسا کہ ہم اس سے قبل کالم میں لکھ چکے ہیں ترسیلات زر میں اضافہ کے لئے تارکین وطن کے لئے چاروں صوبوں میں ہائوسنگ سوساٹیاں بنائی جائیں جن میں پلاٹ کی قیمت ڈالر کی صورت میں وصول کی جائے تو ہمارا ملک خاصا سرمایہ اکٹھا کر سکتا ہے۔ سر کاری اداروں میں غیر ضروری بجلی کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ اعلیٰ افسران خواہ ان کا تعلق کسی محکمہ سے ہو بڑی بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے جیسا کہ مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اپنے دور میں لگائی تھی۔ اس وقت سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے معاشی حالات پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم نے ایف ایم ایف کو مراسلہ لکھنے کا اشارہ دیا ہے تاہم اس کے باوجود توقع نہیں وہ اس طرح کا کوئی مراسلہ آئی ایم ایف کو لکھیں گے۔ نئی حکومت کو سانحہ نو مئی میں ملوث لوگوں کے علاوہ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف انتقامی طور پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں انہیں واپس لینا چاہیے تاکہ ملک سے افراتفری کا خاتمہ ہو سکے۔ نئی حکومت کے وزیراعظم پی ڈی ایم دور میں وزارت عظمیٰ پر رہ چکے ہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے لہذا اب ان کی اولین ترجیع ملکی معیشت کو بہتر بنانا ہوگی تاکہ ملک میں کسی طرح معاشی استحکام آسکے۔ وزیراعظم سمیت تمام وزراء کو سیاسی مخالف جماعتوں کے خلاف بیانات سے گریز کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ ملکی ترقی پر مرکوز کرنی چاہیے انہوں نے انتخابات سے قبل کا ماحول پیدا کیا تو نہ تو ملک میں سیاسی او ر نہ معاشی استحکام آسکے گا۔ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل کر ہی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سرکاری اداروں سے کرپشن کے خاتمے کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے جن سرکاری افسران کے خلاف کرپشن کا شائبہ ہو انہیں اعلیٰ عہدوں سے ہٹاکر اچھی شہرت کے افسران کو لگایا جائے۔ جن سیاسی رہنمائوں اور افسران کے خلاف مقدمات زیر التواء ہوں کے فیصلے کرانے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کئے جائیں ۔ حکومت نے یہ اقدامات کئے تو ہمیں یقین ہے پاکستان بہت جلد معاشی گرداب سے نکل جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button