Editorial

درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد ناگزیر

8 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ ن، پی پی اور دیگر اتحادیوں کی حکومت کچھ روز میں تشکیل پانے کی قوی امید ہے۔ پنجاب اور سندھ میں بالترتیب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے وزرائے اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں۔ مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ بن چکیں، یوں اُن کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ سندھ میں مُراد علی شاہ اکثریت سے منتخب ہوئے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں چند دنوں میں حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو وفاق میں نئی بننے والی اتحادی حکومت کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج ہرگز نہیں بلکہ کانٹوں سے بھرا وہ سفر ثابت ہوگا، جس میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانا اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ ملک اور قوم کو بے پناہ مشکلات درپیش ہیں۔ سب سے خطرناک صورت حال پاکستانی روپے کے حوالے سے قرار پاتی ہے، جو پچھلے پانچ، چھ سال کے دوران پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر بدترین بے وقعتی اور بے توقیری کا سزاوار ٹھہرا۔ مہنگائی کے عفریت پر قابو پانا بھی کوئی آسان ہدف ہرگز نہیں۔ چھ سال کے عرصے میں گرانی تین چار گنا بڑھی ہے۔ یہاں متوسط طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آمدن وہی ہے، اخراجات تین چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کے نرخ بھی ہوش رُبا حد تک بڑھائے جاچکے ہیں۔ اس پر بے روزگاری کے عفریت نے بھی بڑی تباہیاں مچائیں۔ لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا داغ سہنا پڑا۔ اکثر لوگوں کے چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ دیکھا جائے تو ملکی معیشت کی صورت حال کو واپس پٹری پر لانے کے لیے بڑی جانفشانی سے اقدامات ممکن بنانے ہوں گے۔ قرضوں کے ہوش رُبا بار سے عہدہ برآ ہونا بھی چنداں آسان نہیں ہوگا۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو نامزد کیا گیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ادوار کو ترقی اور خوش حالی کے حوالے سے بہتر ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ اس امر کا اظہار عالمی اداروں کی رپورٹس میں بھی ہوچکا ہے۔ اب مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کو بڑے مشکل سفر کا آغاز کرنا ہے، جو کسی طور آسان نہیں بلکہ بہت پُرپیچ اور دُشوار گزار ہے اور اس پر چلتے ہوئے ملک اور قوم کو خوش حالی اور ترقی سے ہمکنار کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سب نے ساتھ مل کر نیک نیتی اور ایمان داری سے کاوشیں کیں تو ان مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ملک و قوم کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کا ادراک نامزد وزیراعظم میاں شہباز شریف کو بھی ہے اور اس حوالے سے گزشتہ روز اُنہوں نے لب کُشائی کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور نامزد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملک سے غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی، ملک میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے، معاشی استحکام کے لیے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے کاوشیں کرنا ہوں گی، اپنے ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے باہمی اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی، سادگی اور کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہوں گے، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سیاسی استحکام اور پُرامن فضا بے حد اہمیت کی حامل ہے، لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان تبھی خوش حال ہوگا جب اس کی تمام اکائیاں خوشحال ہوں گی، تمام صوبوں کی ترقی میرے دل کے قریب ترین ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے بھی معاشی ترقی و استحکام کی روشن مثال قائم کی اور اب بھی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عملی و ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے، زندہ قومیں چیلنجز اور مشکلات کا سامنا بہادری اور محنت سے کرتی ہیں، ہم باہم متحد ہوکر آگے بڑھیں گے اور مسائل حل کریں گے، شہباز شریف نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے کی بچت کرکے کفایت اور بچت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، نواز شریف کا دور ترقی و خوش حالی کا سنہری دور تھا، قائد عوام کی مدبرانہ قیادت میں ملک کو خوش حالی و ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔میاں شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ اُن کے نیک عزائم ظاہر کرتے ہیں کہ نئی حکومت ملک و قوم کو لاحق مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ مانا چیلنجز مشکل ضرور ہیں، لیکن ان سے نمٹنا ناممکن نہیں ہے۔ نگراں دور حکومت کی ہی مثال لے لی جائے تو چند سال میں صورت حال مکمل طور پر موافق بنائی جاسکتی ہے۔ نگراں حکومت کے کچھ ماہ کے اقتدار میں کیے گئے راست اقدامات کی بدولت پاکستانی روپے نے استحکام حاصل کرنا شروع کیا۔ ڈالر کے نرخ میں 50روپے کے قریب کمی ممکن ہوسکی۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ معقول حد تک گرے۔ آٹا، چینی، گھی، تیل اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں زیادہ نہ سہی کمی ضرور واقع ہوئی۔ ایسے میں نئی بننے والی حکومت کے لیے بھی روپے کو استحکام عطا کرنا، مہنگائی پر قابو پانا، غربت میں کمی اور بے روزگاری پر قابو پانا ناممکن ہرگز نہیں۔ ایسا کیا جاسکتا ہے بس اس کے لیے سنجیدہ کاوشیں اور مخلصانہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان قدرت کے عطا کردہ بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر ان پر انحصار کیا گیا اور قرضوں کے بار سے بتدریج نجات کے لیے کوششیں کی گئیں تو ضرور صورت حال کچھ سال میں بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔
پولیو کو ہر صورت شکست دی جائے
پولیو ایک خطرناک وائرس ہے، جو اطفال کو زندگی بھر کے لیے اپاہج بنا ڈالتا ہے۔ ماضی سے اب تک دیکھا جائے تو لاتعداد لوگ ایسے دِکھائی دیں گے جو پولیو وائرس کی زد میں آنے کے باعث عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ دُنیا بھر سے پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے، پاکستان اور چند ایک وہ بدقسمت ممالک ہیں، جن میں پولیو وائرس آج بھی موجود ہے، آج بھی ہمارے ملک میں پولیو سے متاثرہ بچے رپورٹ ہورہے ہیں۔ اس وجہ سے وطن عزیز پر سفری پابندیاں عائد ہیں، جو دُنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں۔ پولیو کے تدارک کے لیے عرصہ دراز سے حکومتی کوششیں قابل تعریف رہی ہیں کہ یہاں متواتر پولیو سے بچائو کی مہمات کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور لاتعداد بچوں کو بچائو کی ویکسین پلاکر پولیو کے خطرے سے تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے۔ گو ملک کے بعض حصّوں میں والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے اجتناب کیا جاتا رہا ہے، اس کی وجہ پولیو ویکسین سے متعلق وہ من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے، جس سے متاثر ہوکر والدین اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل اپنے بچوں کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے پولیو کے خلاف باوجود کوششوں کے مکمل کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ رواں سال جنوری میں 20اضلاع کے سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی رپورٹ ہوئی تھی جبکہ 2023میں سیوریج کے 126نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا تھا۔ پولیو سے جنگ جاری ہے اور اس حوالے سے مہمات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ روز بھی پولیو سے بچائو کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت قومی صحت کی جانب سے تمام بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور بنانے والے پولیو وائرس سے بچانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے رواں سال کی دوسری ملک گیر قومی انسدادِ پولیو مہم کا آغاز کر دیا گیا، 2024کی دوسری مہم کے دوران ملک بھر میں 3مارچ تک اور3سے 9مارچ تک خیبر پختونخوا کے 33اجلاس میں پانچ سال سے کم عمر کے 45.8ملین سے زائد بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلائے جائیں گے جب کہ بچوں کی قوتِ مدافعت میں اضافے کے لیے وٹامن اے کی اضافی خوراک بھی دی جائے گی۔ وفاقی سیکریٹری صحت افتخار شلوانی نے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیو خوف ناک بیماری ہے، جس کا کوئی علاج نہیں اور یہ وائرس بچوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا سکتا ہے۔ پولیو کے سدباب کے لیے یہ مہم خوش آئند ہے۔ ان سطور کے ذریعے ہم والدین سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین لازمی پلوائیں۔ اس حوالے سے کسی پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔ یہ ویکسین صرف اور صرف پولیو وائرس کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔ اس سے متعلق پروپیگنڈا بعض عناصر کی مذموم کوشش ہے، جس پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔ پولیو کے تدارک اور مہم کی کامیابی کے لیے وسیع پیمانے پر آگہی کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کی اہم شخصیات بھی پولیو کے خلاف اس مہم کو کامیاب بنانے میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ پولیو وائرس کو ہر صورت شکست دی جائے کہ آئندہ کوئی طفل عمر بھر کی معذوری سے دوچار نہ ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button