ColumnQadir Khan

پیپلز پارٹی، سندھ اور فیوڈل ازم کا عروج

قادر خان یوسف زئی
صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا 24برسوں سے زیادہ عرصے سے برسر اقتدار رہنے کا دورانیہ ہے، پی پی پی نے سندھ کے سیاسی منظر نامے کے تانے بانے میں خود کو بُن رکھا ہے، متعدد انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ابھری اور اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہے جو اکثر سیاسی مخالف جماعتوں کو پریشان اور ناقدین کو مشتعل کرتی ہے۔ جیسا کہ سید مراد علی شاہ نے ایک اور مدت کے لیے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے، اس سے پیپلز پارٹی کی مسلسل کامیابی اور اسے درپیش تنقیدوں کا ایک اور اہم امتحان بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اب انہیں کارکردگی کے حوالے سے پنجاب میں مریم نواز شریف جیسی بڑی سیاسی جماعت کی سرگرم وزیراعلیٰ اور خیبر پختونخوا میں تیسری بار صوبائی حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف پ سے موازنہ کا سامنا ہوگا۔ واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1967میں اپنے قیام کے بعد سے، پیپلز پارٹی پاکستانی سیاست میں ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے۔ تاہم، اب یہ صوبہ سندھ میں ہے جہاں پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت ملی ہے۔ چیلنجز اور مشکلات کے ادوار کا سامنا کرنے کے باوجود، پی پی پی سندھ میں اپنا مضبوط گڑھ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے، جس کا ثبوت اس کی بار بار انتخابی فتوحات اور مسلسل حکمرانی کو قرار دیا جاتا ہے۔
سندھ میں پی پی پی اپنی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ عوام سے گہرے تعلق کا دعویٰ کرتے نظر آتی ہے ، بادی النظر اسے درست بھی تسلیم بھی مانا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں ہر انتخابات میں بڑی کامیابی ملتی ہے اور مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر حزب اختلاف ۔ اپنی پاپولسٹ بیان بازی اور ٹارگٹڈ پالیسیوں کے ذریعے، پی پی پی نے دیہی سندھ کے ساتھ اب شہری علاقوں میں ایک وفادار ووٹر بیس تیار کیا ہے جو پارٹی کو اپنے مفادات اور امنگوں کا حقیقی نمائندہ سمجھتا ہے۔ یہ نچلی سطح کی حمایت، جو کئی دہائیوں پر محیط سیاسی سرگرمی اور سماجی رابطے پر مشتمل ہے، سندھ میں پی پی پی کی انتخابی کامیابی کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ مزید برآں، بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات کے ساتھ موافقت اور ارتقاء کی پی پی پی کی صلاحیت نے اس کے مسلسل غلبہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابھرتے ہوئے سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اتحاد بدلنے سے لے کر، پارٹی نے پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں متعلقہ رہنے کی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری جیسی شخصیات کی قیادت میں پی پی پی نے سندھ کی صوبائی سطح پر قائم رہتے ہوئے اپنے امیج کو مضبوط بنایا ہے۔ گوکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں فیوڈل ازم کی سیاست ہے لیکن ان کے مقابلے میں بھی جاگیردارانہ سوچ و وڈیرانہ نظام کے حامی ہی ہوتے ہیں، اس لئے فیوڈل ازم میں پی پی پی کی کامیابی کو بیشتر اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں پی پی پی کی یکطرفہ کامیابی کی راہ میں حائل وہ جماعتیں ہیں جو لسانیت ، قوم پرستی سمیت مذہبی بنیادوں پر سیاست کرتے ہیں۔ ان حالات میں اس عنصر کو توڑنے کی کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن اس کے لئے انہیں پارٹی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی ، کیونکہ شہری آبادی اس امر پر تحفظات رکھتی ہے کہ پی پی پی قوم پرستی میں دیگر لسانی اکائیوں کے ساتھ جانب دارانہ رویہ رکھتی ہے اور شہری علاقوں میں بھی مخصوص علاقوں میں زیادہ فنڈنگ کرتی ہے جس کی وجہ سے کچی آبادیوں سے لے کر پکی آبادیوں تک مبینہ تعصب کی ایک لہر ہے جس کی زد سے پیپلز پارٹی متاثر ہے اور شہری آبادی کا دیہی سندھ کی طرح کامل اعتماد حاصل نہیں کر سکی ہے، بالخصوص شہر کراچی میں پی پی پی اپنا موثر اثر رسوخ بنانے کی تگ و دو میں ہے ، مئیر کراچی ایک جیالا ہے ، انہیں موقع ملا ہے کہ وہ شہری آبادی کا اعتماد حاصل کر سکیں تاہم ابھی تک ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم، اپنی انتخابی کامیابیوں اور حکمرانی کی کامیابیوں کے باوجود، پی پی پی اپنے ناقدین کو اپنے کارکردگی سے جواب دے ، صوبہ سندھ میں بڑے مینڈیٹ کے ساتھ تنہا حکومت بنانے کی صلاحیت اس امر کا امتحان بھی ہے کہ حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلا جائے ، عددی اکثریت کے زعم میں اپوزیشن اور ان علاقوں کو نظر انداز نہ کیا جائے جو پی پی پی کے مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود ابھی تک سماجی و بلدیاتی ترقی سے محروم ہیں، حالانکہ ان کے پاس اختیار کے ساتھ اقتدار بھی ہے ۔ پی پی پی کی مخالفت کرنے والے اکثر بدعنوانی، اقربا پروری اور نااہلی کے الزامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہوں نے پارٹی کے دور اقتدار کو متاثر کیا ہے۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ اگرچہ پی پی پی انتخابات جیتنے میں سبقت لے سکتی ہے، لیکن حکمرانی میں اس کا ٹریک ریکارڈ بہت متنازع بھی ہے۔ مسلسل مسائل جیسے کہ ناقص انفرا سٹرکچر، صحت کی ناکافی دیکھ بھال، اور وسیع پیمانے پر غربت پارٹی کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے اور عوامی عدم اطمینان کو ہوا دیتی ہے۔ مزید برآں، سندھ میں پی پی پی کے غلبے کی وجہ عوامی حمایت کی بجائے قابل عمل متبادل کی کمی کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک متحدہ محاذ پیش کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے یا ایک ایسا زبردست نقطہ نظر بیان کیا ہے جو حقیقی مسائل کی نمائندگی کرتا ہے، اس طرح نادانستہ طور پر پی پی پی کے انتخابی امکانات کو ڈیفالٹ طور پر تقویت ملتی ہے۔ مضبوط سیاسی مقابلے کی اس غیر موجودگی نے پی پی پی کو تنقید اور جانچ پڑتال کا سامنا کرنے کے باوجود اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کا موقع دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں پائیدار کامیابی کو کئی عوامل کے مجموعے سے منسوب کیا جا سکتا ہے، بشمول اس کی نچلی سطح پر حمایت، موافقت اور قابل اعتماد اپوزیشن کی عدم موجودگی۔ اگرچہ پی پی پی نے بلاشبہ متعدد انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں اور صوبے پر طویل مدت تک حکومت کی ہے، لیکن یہ تنقید اور جانچ پڑتال سے محفوظ نہیں ہے۔ سید مراد علی شاہ کے بطور وزیر اعلیٰ تیسری بار کا آغاز کرتے ہوئے، پی پی پی کو اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کے چیلنج اور سندھ کے عوام کی خدمت کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے کا موقع دونوں کا سامنا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ پارٹی اپنے غلبے کی میراث کو جاری رکھ سکتی ہے یا تبدیلی کی ہوائیں صوبائی سیاست میں نئے دور کا آغاز کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button