Column

اردو ہے جس کا نام

صفدر علی حیدری
2019ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ 2020ء سے ایک بار پھر ساری کتابیں اردو میں ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی یکساں نصاب کا ڈول ڈالا گیا اور پرائمری سطح پر ساری کتابیں اردو میں لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ، جس پر صوبوں کا شدید ردِ عمل سامنے آیا اور اب اردو کتابوں کو انگریزی زبان میں پھر سے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ ان لوگوں کو رات کو خواب آتا ہے اور اگلی صبح اس خواب کو شرمندہ کرنے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے ۔
اردو زبان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے سات دہائیوں میں اردو کو باثروت زبان بنانے کے لیے کوئی ایک بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف انگریزی ایک طاقتور زبان کے طور پر ابھری ہے جو نہ صرف اچھی ملازمت کے حصول کے لیے بلکہ اعلیٰ سطح کی تعلیم کے عمل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ تحقیقی معلومات کا بڑا حصہ انگریزی زبان کی کتابوں اور جریدوں میں ملتا ہے۔ سکول کی درسی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا اسی طرح کا عاجلانہ فیصلہ ہے جس کی نظیر ہمیں ماضی میں بار بار ملتی ہے ۔ یہاں یہ بات تحقیق طلب ہے کہ وہ پالیسی ساز جو قوم کے بچوں کو کتابیں اردو زبان میں منتقل کرنے کی خوش خبری دیتے ہیں ، ان کے اپنے بچے کہاں اور کن سکولوں میں پڑھتے ہیں؟ اور کیا وہاں کتابیں اردو میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
قومی زبان کی اہمیت پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ دفتر کے دفتر بھر جائیں لیکن ہمارے پالیسی ساز اور حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ کالے انگریز ہمیں لڑ گئے ہیں۔
اب کس کس ملک کی مثال دی جائے۔ چین کو دیکھ لیں، چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان کو ہی لے لیں۔ ہر دو ممالک نے اپنی بے مثال ترقی کسی بدیسی زبان کے سہارے نہیں کی بلکہ اپنی قومی زبان کو عزت دی، اپنی روایات کی پاسداری کی اور پوری دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جس نے ترقی کی ہو اور اس کی ترقی بدیسی زبان کی رہین منت ہو۔
علم نفسیات کے ماہرین ایک عرصے سے چیخ رہے ہیں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ ایسا کرنے سے ان کی فطری صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور وہ تعلیمی میدان میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں اور ان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہم یہ کہتے ہوئے تو کبھی نہیں تھکتے کہ اردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کرنے سے بنگالیوں کے اپنی زبان کے حوالے سے شدید تحفظات اور خدشات تھے اور یہی اعلان ان کے دل میں علیحدگی کے جذبات پیدا کر گیا لیکن یہ نہیں کہتے نہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ اردو ہے کہاں اور اس کا استعمال بطور قومی زبان کب کیا گیا۔ ہر قوم اپنی قومی و ملی روایات کی امین ہوتی ہے۔ اس سے محبت کرتی ہے اور اس پر فخر کرتے نہیں تھکتی سوائے ہمارے قوم کے جو اردو اور دیگر مادری زبانوں کے بولنے والوں کو پینڈو خیال کرتی ہے۔
تعلیم ایک قومی معاملہ ہے مگر بدقسمتی سے اٹھارویں ترمیم نے اسے صوبائی مسئلہ بنا دیا ہے۔ تب سے یہ ایک مسئلہ ہی بنی ہوئی ہے۔ صوبوں سے تو اپنے معاملات نہیں سنبھلتے۔ ان میں یہ اہلیت ہی کب ہے کہ تعلیم جیسے حساس مسئلے پر غور و فکر کرتے ہوئے کوئی بہتر لائحہ عمل مرتب کر سکے۔
اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور وقار کے ساتھ اقوام عالم میں سر اٹھا کر جینا ہے تو ہمیں قومی زبان کو اہمیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ختم کرنا ہوگا۔ اس کو سرکاری زبان بنانا ہو گا۔ صرف اسی صورت میں ہم ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button