ColumnM Anwar Griwal

جلسے ،سیلاب اور سیاستدانوں کی بے حسی! .. محمدانور گریوال

محمدانور گریوال

 

عمران خان جنوبی پنجاب کے اہم شہر بہاول پور جلسہ کرنے تشریف لے گئے۔ بہاول پور خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ نوابوں کا شہر ہونے اور کہلوانے کی وجہ سے بہت خوبصورت بھی ہے، گزشتہ کئی برس سے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی محنت اور کوششوں سے صفائی میں بھی پاکستان بھر میں پہلی تین پوزیشنوں پر آتا ہے۔ حالیہ بارشوں سے بہت سی سڑکیں بیٹھ گئیں، سیوریج سسٹم بہت حد تک ناکارہ ہو گیا۔ اب عمران خان کے جلسہ کا اعلان ہوا تو کئی روز سے سرکاری مشینری منصوبہ بندی کے سلسلہ میں حرکت میں تھی، کیونکہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پنجاب میں انہی کی حکومت ہے، لاہور میں وہ وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر ہی احکامات جاری کرتے ہیں۔بہاول پور میں کمشنر کی زیرِ نگرانی جلسے کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے اجلاس منعقد ہوتے رہے، جن میں ماتحت انتظامیہ کے افسران کا شامل ہونا فطری بات ہے۔ پھر عوام نے دیکھا کہ شہر میں اہم مقامات پر بڑے بڑے ہورڈنگزلگ گئے، جن پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے بڑے ، چھوٹے (اور خود ساختہ قائدین کہ جنہیں پینا فلیکس لیڈر بھی کہا جا سکتا ہے)کی تصاویر آویزاں تھیں۔ بات مزید بڑھی تو دیکھنے میں آیا کہ کوئی کھمبا ایسا نہیں بچا جس پر فلیکس نہ لٹک رہا ہو، یا سڑک کے آر پار ایسے ہی بینر وغیرہ نہ لگے ہوں۔
چاروں اطراف فلیکسوں نے سایہ کر رکھا تھا، کہا جاسکتا ہے کہ پورے شہر میں شاید یہ لاکھوں میں ہوں۔ یہاں سوال یہ اٹھایا جاسکتا ہے، کہ اِ ن پر کتنا خرچہ اٹھا ہوگا؟ ستم یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی اور سرکاری مشینری کے ذریعے ممکن ہوا، ظاہر ہے لاکھوں روپے سرکاری خزانے سے ہی ادا ہوئے ہوں گے۔ یہاں اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آیا ’پی ایچ اے‘ کو اس کا ٹیکس ادا کیا گیا؟ یہ ٹیکس یقیناً لاکھوں میں ہی ہے۔ عام آدمی اگر کسی کھمبے پر ایک سٹیمر بھی لگا لے تو سیکڑوں روپے ٹیکس نچوڑا جاتا ہے۔ یہاں سرکاری خدمت کا ٹیکس کون دے گا، کون لے گا؟ سابق وزیراعظم کے سفر کیلئے استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹر کے اخراجات کا تخمینہ بھی لاکھوں میں ہی ہوسکتا ہے۔ پھر کرسیاں، روشنیاں، ٹینٹنگ، سائونڈ سسٹم اور بھی بہت کچھ۔ جلسے کا کل خرچہ
کروڑوں میں ہی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہ پورے ریجن کی پولیس کی ڈیوٹیاں۔ ظاہر ہے دوسرے اضلاع اور شہروں سے پولیس کو بلایا جاتا ہے، سارا دن وہ لاوارثوں کی طرح پڑے رہتے ہیں۔ وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور اِن جوانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اکٹھا کر کے ٹرکوں میں بھر لیا جاتا ہے، اور اپنے اپنے شہروں کو روانہ کر دیا جاتا ہے۔
اس جوشیلے اور طرب ونشاط پر مبنی جلسے سے پہلے کے مناظر ایک طرف، اور سیلاب زدگان کی مدد کیلئے لگائے گئے ریلیف کیمپ دوسرا ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔ بزرگ،بچے ، خواتین اور نوجوان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق پیسے اور سامان جمع کر رہے ہیں، ایک ایک روپیہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ سیلاب متاثرین کو ایک ایک روپے کی ضرورت ہے، اُن کی ضرورتیں آنے والے کئی ماہ تک محیط ہیں، یہ ریلیف کا کام چند دنوں کا نہیں، ابھی پانی اترے گا، اُن کی کیمپوں سے واپسی ہوگی، تباہی کا اندازہ ہوگا، خوراک کا مسئلہ سب سے پہلے، پھر گھر کی تعمیر کا معاملہ، صحت کے مسائل اور پھر آنے والے وقت کیلئے ضروریاتِ زندگی کا سلسلہ۔ مگر
مجال ہے کہ پی ٹی آئی کے مقبول ترین قائد نے جلسوں کے اخراجات کو سیلاب زدگان کی جانب موڑنے کا سوچا ہو، متاثرہ علاقوں میں خود تشریف لے گئے ہوں یا اُن کے منتخب نمائندے ہی وہاں پہنچ کر مشکل میں پھنسے اور دھنسے عوام کو نکالتے پائے گئے ہوں! دلائل بے شمار ہیں، بتایا جائے گا کہ کیا یہ کم ہے کہ پانچ سو ارب روپے جمع کر لئے گئے ہیں، یہ بھی باور کرایا جائے گا کہ ہمارے قائد کواقوامِ متحدہ نے خطاب کیلئے دعوت دے دی ہے اور یہ بھی کہ ہمارے کپتان کی فین فالونگ بہت زیادہ ہے، لوگ اُن پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سب کچھ درست ہے، کیا جلسے اضافی سرگرمی نہیں؟ کیا جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات مشکل میں پھنسے لوگوں پر لگانا افضل تر نہیں؟ اور کیا مصیبت میں پڑے لوگوں کو چھوڑ کر جلسوں پر کروڑوں کے اخراجات فضول خرچی اور ظلم نہیں؟
اب آئیے ذرا حکومت کی طرف کہ بظاہر وہ ہیلی کاپٹروں پر متاثرہ علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں، کچھ تصاویر بنواتے اور کچھ سامان تقسیم کرتے ہیں، مگر وہ جانتے نہیں کہ اُن کیلئے عموماً جعلی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں، اُن کی واپسی کے بعد ضلعی انتظامیہ سامان سمیٹ کر واپسی کا قصد کرتی اور باور کرواتی ہے کہ ریلیف کا بہت کام ہو گیا۔ اس تمام تر جعل سازی میں سیلاب زدگان کیلئے دیا گیا سامان بھی خرد برد کر لیا جاتا ہے۔ ایک تو سرکاری بندوبست کے ساتھ کیا گیا کام اور خریدا گیا سامان بے حد مہنگا ہوتا ہے، ستم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ وہ بھی بہت حد تک پسندیدہ لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ سرکاری اہتمام میں نصف بھی اصل مستحق تک پہنچ جائے تو غنیمت جانا جائے۔ جن کا کچھ نہیں بچا،اُن کیلئے اکٹھا کیا گیا سامان ڈکار لینا کس قدر بے حسی کی بات ہے ؟ سرکاری ہیلی کاپٹر کیڑوں مکوڑوں پر آٹے کے تھیلے اوپر سے ہی گراتے دکھائے گئے، آٹا بم کی طرح پھٹا اور بکھر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں سرکاری طور پر قائم کئے گئے فنڈز میں پذیرائی نہیں پائی جاتی، لوگ جانتے ہیں کہ حرام خوری کا چلن اس قدر عام ہے کہ یہ سامان اصل حق داروں تک پہنچ ہی نہیں پائے گا۔ اجتماعی طور پر سیاستدانوں کی سیلاب زدگان کیلئے مدد نہایت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ تاجروں کو دیکھیں تو ایک طرف مستحقین کی ضرورت کا سامان مہنگا دیں گے، دوسری طرف کیمپ لگا کر فنڈز اکٹھے کرنے بیٹھ جائیںگے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کی تمام تر بے حسیوں اور بے ایمانیوں کے باوجود عوام میں اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کا جذبہ موجود و موجزن ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد کرنے والوں کو ہمت دے اور اپنے سیاست چمکانے والوں کو ہدایت۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button