ColumnQaisar Abbas

سیلاب :پھولوں کو کہاں دفن کریں؟ .. قیصرعباس صابر

قیصرعباس صابر

 

آئیے کچھ مناظر پر ماتم کیجئے۔
سیلاب کا پانی پسے ہوئے لوگوں کی پست بستیوں کی طرف جا چکا تھا ۔ خشک لکڑیوں اور مٹی کے ڈھیر کے ساتھ ، نرم ریت پر چند پھول کھلے تھے جن کی پنکھڑیاں گیلی زمین سے کچھ اس انداز سے باہر نکلی تھیں جیسے فریاد کر رہی ہوں ۔ ان پھولوں کا رنگ دریائی ریت سے مات کھا چکا تھا ۔ پہلی نظر میں وہ صرف ایک پھول تھا، مگر ایسے بہت سے پھول اس ریت میں دفن تھے جن پر موت کی شبنم چھڑک دی گئی تھی ۔ ان مرجھا چکے پھولوں کو ریت کے شکنجے سے آزاد کرنے کیلئے کوئی سرکاری مالی وہاں موجود نہ تھا کیونکہ یہ محروم اور پست طبقے کی بستیوں کے پھول تھے ۔ اس خطے کے وڈیروں نے وزارتوں ، عہدوں اور ٹکٹوں کے لالچ میں اپنی زبانیں مقفل کر رکھی تھیں ۔ یہ لوگ بھی کیا لوگ تھے جو چند لمحوں کی آسودگی کے عوض ماں دھرتی پر کھلنے والے پھول بیچ دیتے تھے ۔راجن پور ، داجل ، فاضل پور، دائرہ دین پناہ اور سندھ سائیں کے ساتھ ساتھ جتنے بھی علاقے تھے وہاں پر ایسے سیکڑوں پھولوں کی تدفین کیلئے خشک زمین نہ تھی ۔ لجپال وسیبی اپنے کاندھوں پر پھولوں کی لاشیں اٹھائے قبر کی خشک زمین تلاش کرتے کرتے اس طرف بھی آئے جہاں چند اور پھول اپنے مرجھا جانے کے باوجود کھلے ہوئے تھے اور ان پر گیلی ریت کا لیپ چڑھا تھا ۔ قریب آئے تو پتہ چلا وہ پھولوں کی پنکھڑیاں نہ تھیں ، ان ہاتھوں کی انگلیاں تھیں جن کی
لکیروں میں بے حس حکمرانوں نے خود غرضی کے رنگ مقدر کر دئیے تھے ۔عین اسی جگہ وہ ہاتھ تھے ، جس کے ساتھ کچھ معصوم اور کلیوں جیسے ہاتھ بھی تھے جن کا قصور صرف بے حسی کی سرزمین پر کھلنا تھا ۔ ان ہاتھوں کے ساتھ جو جسم تھے وہ تلاش کئے جانے لگے ۔ قبروں کیلئے خشک زمین تلاش کرتے چند لوگ ادھر بھی آئے اور بے کفن ، دفن ہو چکے ہاتھوں کے ساتھ جسموں کو تلاش کیا جانے لگا ۔گھی کے خالی ڈبوں سے بنی بالٹیوں کی مدد سے پانی نکالا گیا اور پھر وہ ریت ہٹائی گئی جو ان جسموں پر اپنا الگ جسم بنا چکی تھی۔ گیلی قبروں سے جو لاشیں نکلیں وہ بڑے شہروں کے وسیع ایوانوں میں کھلنے والے پھولوں جیسی نہ تھیں ۔ ان کے مردہ جسموں پر بے بسی کی آیات کنندہ تھیں ۔
پھر ایک اور منظر ہمارے سامنے تھا۔
پھر ریت میں دفن ایک پھول پہچان لیا گیا ۔ تین سالہ صفدر ماچھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اور دو روز پہلے تک وہ بستی داجل کے مضافات میں ایک ٹیلے پر بیٹھا ہوا پانی سے کھیلتا تھا کبھی دودھ کیلئے روتا تھا ۔ بے بس والد تیسرے دن کی بھوک پر زندگی بچانے کی جنگ کو غالب کرتے ہوئے صفدر کیلئے پریشان تھا کہ پانی کے ایک ریلے نے باپ کی پریشانی کو ختم کردیا ۔ ڈوبتے ہوئے تین سالہ بچہ صفدر مسکرا رہا تھا جیسے پانی کوئی کھلونا ہو۔ صفدر کے باپ ناصر کی یاداشت میں اپنے بیٹے کی آخری مسکراہٹ ٹھہری ہوئی تھی کہ ریت میں دفن وہ پھول جب نکالا گیا تو ناصر نے اپنے بیٹے کی مسکراہٹ پہچان لی۔دوسرا ہاتھ جو مٹی سے باہر پھول کی طرح کھلا تھا وہ میر خان بنگانی کا ہاتھ تھا۔ میر خان بنگانی مضبوط جسامت اور قوی ارادے کا مالک شخص تھا۔ وہ کوہ سلیمان میں اپنی جسمانی طاقت کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا ۔ وہ سیلابی لہروں سے شکست کھانے والا نہ تھا ۔ ڈوبنے والے بچوں کو پانی سے بچاتے بچاتے وہ 170 کلومیٹر تک طغیانی سے لڑتا رہا اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے ، تونسہ شریف کے جنوبی قصبے دائرہ دین پناہ کی اس ریت میں زندگی ہار گیا جہاں سے اس کے فریادی ہاتھوں کو دیکھ کر مٹی ہٹائی جا رہی تھی ۔ بستی بنگانی سے دائرہ دین پناہ تک کا سفر 170 کلومیٹر اور مدد کی لاکھوں پکاروں پر مبنی تھا ۔
قبروں کیلئے خشک زمین کی تلاش میں کندھوں پر رکھے سیکڑوں جنازے دکھ اور بے بسی کی الگ داستانیں سنا رہے ہیں ۔ حکومت اور اقتدار والوں کی ترجیحات الگ ہیں ۔ اب کی بار ترسیل خبر کے ذرائع بھی ان بے کفن میتوں کو اہمیت نہیں دے رہے ۔ بھوک اور موت دونوں ساتھ ساتھ محو سفر ہیں ۔ان مناظر کو سوشل میڈیا بھی خلاف پالیسی قرار دے کر بلاک کر رہا ہے ۔ اہل دل اور اہل نظر پریشان ہیں کہ گیلی ریت میں دب چکے پھولوں کو کہاں کہاں سے تلاش کریں اور کہیں خشک زمین ملے تو تدفین کریں ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button