ColumnM Anwar Griwal

رنگوں، کتابوں اور پودوں میں گزارے لمحات! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

دعوت نامے میں کشش اِس قدر تھی کہ انکار ممکن نہ تھا۔ پہلے لائبریری، وہ بھی سینٹرل لائبریری بہاول پور، دوسرے آرٹ کی نمائش، تیسرے نمائش بھی خصوصی طلبہ و طالبات کے کالج کی، چوتھی اور اہم بات کہ لائبریری کے احاطے میں پودے لگانے کا موقع۔چیف لائبریرین رانا جاوید اقبال کا مواصلاتی پیغام ملا تو میں اپنی جانِ جگر بیٹی کے ساتھ کشاں کشاں وہاں پہنچا کہ میری بیٹی بھی آرٹ میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ طلبا اور طالبات نے آرٹ کے بہت خوبصورت فن پارے تیار کر رکھے تھے، جن میں کینوس پر کسی تصوّر کو اتارنے کا بندوبست تھا تو کسی نے پنسل ورک سے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، کوئی رنگوں کو پانی کے استعمال سے فن پارے بنا کر لایاتھا۔ ان میں بہت سے ماڈل بھی شامل تھے، تمام چیزوں میں ہنر مندی دیکھ کر دیکھنے والے حیران اور خوش تھے، بچوں کو شاباش دینے پر مجبور تھے،گویائی کی قوت سے محروم طلبا آپس میں اشاروں سے باتیں کرتے اور اپنی بنائی ہوئی چیزوں کی وضاحت کر رہے تھے ۔ چھوٹی سی خوبصورت تقریب میں طلبہ و طالبات کو شیلڈز اور سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔ کالج کی پرنسپل بھی موجود تھیں۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے پروگرام کی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز حافظ یونس نے بھی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔

میڈم نے جہاں بچوں کی حوصلہ افزائی کی وہاں آرٹ کے شعبوں کی ترویج و ترقی کے لیے مشورے بھی دیئے۔ انہوں نے تصاویر اور ماڈل بنانے اور کیلی گرافی کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کوکہانی لکھنے کی عادت ڈالنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ جس پر چیف لائبریرین نے اس بات کو نہ صرف سراہا، بلکہ آئندہ ہونے والی ایسی تقریبات میں اس اضافے کا وعدہ اور ارادہ ظاہر کیا۔ داستان گوئی والی بات پر میرا ذہن فوراً سیاست دانوں کی کہانی بازی کی طرف گیا، تاہم میں نے جلد ہی سَر جھٹک کر خود کو اس خیالِ بَد سے آزاد کر لیا۔ بہاول پور کی سینٹرل لائبریری بلاشبہ ایسی تقریبات کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے، جہاں اس کی جگہ بھی ہے اور ماحول بھی ادب ، آرٹ دوست۔ یہی وجہ ہے کہ لائبریری اِن شعبہ ہائے زندگی کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے، جس کی اہم بات یہ بھی ہے کہ سربراہِ ادارہ ہمہ وقت تعاون کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ میڈم کی سرپرستی کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا گیا کہ لائبریری کے لیے جو کتابیں آتی ہیں، ان کے انتخاب کے لیے کوئی مناسب کمیٹی موجود نہیں، جو فیصلہ کر سکے کہ قارئین کی دلچسپی اور ضرورت کے لیے کس قسم کی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال قاری کو لائبریری تک لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، سوشل میڈیا نے مطالعہ کی رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اِس لائبریری کے باہر اور اندر کا ماحول بہت دلکش ہے، اِس قسم کی تقریبات لوگوں میں لائبریری کا راستہ دکھانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

لائبریری کی عمارت آرٹ کا دلکش نمونہ ہے، جو کبھی آموں اور دیگر بڑے بڑے درختوں کے جُھرمٹ میں شان و شوکت سے قائم و دائم تھا۔ وقت کے تھپیڑوں اور حالات کی سختی کی وجہ سے بہت سے درخت اپنی طبعی عمر گزار کر ملکِ عدم سدھار چکے ہیں۔ تاہم اب بھی آموں کے بہت سے درخت اس خوبصورت عمارت کے حُسن کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ عمارت کے چاروں طرف وسیع جگہ موجود ہے۔تقریب کے شرکاء کو یہ بھی بتایا گیا کہ تقریب کے آخر میں باہر احاطے میں کچھ پودے لگائے جائیں گے، جو فرد بھی پودا لگائے گا وہ اُس پودے کی نگرانی بھی کرے گا، کسی ضرورت اور کمی بیشی کی صورت میں لائبریری انتظامیہ کو آگاہ کرے گا۔ خیال پیدا ہوا کہ شاید پودا لگانے والا اپنے پودے کی دیکھ بھال یوں کرے گا کہ وقتاً فوقتاً اُس کی گوڈی کرے گا، خشک ہو جانے والی شاخوں کو کاٹے گا، ضرورت سے زیادہ نکلنے والی شاخوں کی بھی کاٹ چھانٹ کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں تھا، بلکہ وہ صرف کبھی کبھی چکر لگا کر پودا دیکھے گا ، اظہارِ اطمینان یا پھر اظہارِ تشویش (جو بھی وہ دل و دماغ سے محسوس کرے) انتظامیہ کو آگاہ کرے گا۔

سماعت یا گویائی سے محروم لڑکے اور لڑکیوں کے بکھیرے ہوئے رنگوں، خوبصورت تصویروں، کیلی گرافی اور ماڈلز اور ان کی حوصلہ افزائی۔ لائبریری میں آئندہ بھی اپنا پلیٹ فارم مستقل بنیادوں پر فراہم کرنے کا اعلان ، اور باہر احاطے میں لگائے جانے والے پودوں جیسی مثبت اور خوشگوار سرگرمی میں گزارا ہوا ڈیڑھ گھنٹہ بہت یاد گار تھا۔ کہ یہی ہماری آنے والی نسلوں کی ضرورت ہے، اگر ہم نئی نسل کو کتاب اور درخت سے جوڑنے میں کامیاب ہو گئے، اور فنونِ لطیفہ میں بچوں کی دلچسپی پیدا کرنے ہمیں کامرانی نصیب ہو گئی تو جان لیجئے کہ ہم کامیاب ٹھہرے۔ ورنہ یہ سوشل میڈیا نئی نسل کو برباد کر کے رکھ دے گا۔ ملک کے سیاسی حالات بھی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، جنہیں ’’بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے‘‘کی ضرورت ہے۔ عدم برداشت، نام بگاڑنے، گالی گلوچ، الزامات، بیانئے اور نہ جانے کیا کیا کچھ قوم کی راہیں کھوٹی کرنے کے اسباب ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین کو قوم کی رہبری کرنا تھی، وہ قوم کو گمراہ کرنے پر تُلے ہیں۔ بہرحال سینٹرل لائبریری میں منعقد ہونے والی تقریب اِن کشیدہ حالات میں آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے، کہ دم توڑتی اخلاقیات میں چند گھنٹے بہترین موضوعات اور ماحول میں گزر جائیں تو غنیمت ہے۔ رنگوں، کتابوں اور پودوںمیں گزرے یہ لمحات سیاستوں پر بحث کرنے یا پھر سوشل میڈیا میں سرکھپانے یا جان گھلانے سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button