ColumnRoshan Lal

بدعنوان اور بدعنوانی .. روشن لعل

روشن لعل

 

’’ بدعنوانی‘‘ لغت میں موجود ایسا لفظ ہے جو ہمارے سماج میں اپنے حقیقی معانی کھو چکا ہے اور ایسا بلاوجہ نہیں ہوا۔ لفظ’’بدعنوانی ‘‘ کے یہاں بے معنی اوربے توقیر ہونے میں اتنا کردار بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آنے والے لوگوں نے نہیں جتنا نام نہاد محتسبوں نے ادا کیا ۔ محتسبوں نے لفظ بدعنوانی کو لایعنی بنانے کے لیے اپنا بدنام زمانہ کردار قیام پاکستان کی فوراً بعدشروع کر دیا تھا۔ آغاز میں اس طرح کا کردار ادا کرنے والے بھی سیاستدان اور ان کا نشانہ بننے والے بھی سیاستدان ہی تھے۔اس طرح کے کردار کا اولین نشانہ بننے والے سیاستدان تین مرتبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بننے والی ایوب کھوڑو تھے۔ ایوب کھوڑو کو پہلی مرتبہ صرف بدعنوانی کے الزامات لگا کر برطرف کیا گیامگر دوسری مرتبہ نہ صرف برطرف بلکہ نااہل بھی قرار دے دیا گیا۔ نااہل قرار دیئے گئے ایوب کھوڑو کو کسی عدالت سے اہلیت کا سرٹیفکیٹ دلوائے بغیر اس وقت اہل قرار دیتے ہوئے تیسری مرتبہ سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جب اس صوبے کو ون یونٹ میں شامل کرنے کے لیے ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے کردار کی ضرورت پیش آئی ۔ کھوڑو صاحب یہ کردار ادا کرنے کے لیے رضامند ہو گئے تھے۔

شروع شروع میں بدعنوانی کی الزام سازفیکٹری اور الزامات کو دھونے کی لانڈری لگانے کا کام، ان طاقتور سیاستدانوں نے کیا جو مرکز میں حکمران تھے اور صوبوں کے نسبتاً کمزور سیاستدانوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے تھے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ الزام سازی کی فیکٹریاں اور لانڈری کا نظام ان لوگوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا جو مرکز کے حکمران سیاستدانوں سے بھی زیادہ طاقتور تھے ۔اس تبدیلی سے یہ فرق پڑا کہ نشانہ بنانے کا کام تو کسی اور کے ہاتھ میں آگیا مگر نشانہ بننے والے سیاستدان ہی رہے۔ یوں یہاں ایسا نظام قائم ہو گیا جس کے تحت سیاستدانوں کو سچ اور جھوٹ کی پراہ کیے بغیر صرف پسند اور ناپسند کی بنا پر بد عنوانی کے الزامات کی زد میں لایا جانے لگا۔ یہ عمل اپنے طور پربہت بڑی بدعنوانی ہے مگر یہاں پراپیگنڈے کے ذریعے عام لوگوں کے ذہنوں میں بدعنوانی یا کرپشن کا ایسا تصور بٹھا دیا گیا جو ان میں یہ سوچ ہی پیدا نہیں ہونے دیتا کہ حقیقت میں بدعنوان کون ہے اور بدعنوانی کی اصل تعریف کیا ہے۔

یاد رہے پوری دنیا میں کرپشن یا بدعنوانی کی تعریف سادہ سے پیچیدہ اور وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ ماضی میں کی گئی کرپشن کی تعریف کے مطابق صرف طاقت اور اختیارات کے حامل افراد کی بے ایمانی، دھوکہ دہی اور رشوت خوری کو کرپشن کہا جاتا تھا۔ ایک عرصہ تک کرپشن کی اسی تعریف کو مناسب سمجھا گیا مگر
پھر کرپشن کے عمل کے ہر شعبہ زندگی پر محیط ہونے کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا گیا کہ ایسا ہر وہ طریقہ بد عنوانی کے زمرے میںآئے گا جس میںا لفاظ اور اظہار کو ان کے حقیقی معنوں کی بجائے ایسے مجاز میں تبدیل کر دیا جائے جس سے غبن، غلطی اور ضابطوں کی خلاف ورزی چھپ کر رہ جائے۔کرپشن کی اس جامع تعریف کے بعد مختلف شعبوں میں اس کی شاخوں اور اقسام کی بھی وضاحت کی گئی تاکہ عام لوگوں کو اپنی حدود سے آگاہی کے ساتھ حد کی خلاف ورزی کرنے والے کی گرفت بھی ممکن ہوسکے۔

کرپشن کی اقسام میں سرفہرست استحصال (Extortion) ہے۔ استحصال ایسی کرپشن ہے جس میں طاقت اور اختیار کے زور پر کسی بھی فرد یا ادار ے سے کوئی دوسرا فرد یا ادارہ جبراً دولت، جائیداد یا خدمات حاصل کرے اور جائز مفادات سے بھی محروم رکھے۔

احباب داری (Cronyism) ، بدعنوانی کی ہی ایک قسم ہے جس میں خاص طور پر سیاسی اور سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی ایسے دوست، عزیز یا ساتھی کو مراعات دی جائیں جو ان کے حصول کی نہ قابلیت اور نہ ہی اہلیت رکھتا ہو۔

اقربا پروری یا Nepotism ایسی بد عنوانی ہے جس کا ذکر قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے اپنی تقریروں میں کرتے ہوئے اسے پاکستان کی
ترقی کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ یہ ایسی بد عنوانی ہے جس میں یہاں ہر شعبہ زندگی کے لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔

علاقائی عصبیت(Parochialism) بھی اس وقت ناپسندیدہ فعل سے قابل گرفت بدعنوانی بن جاتی ہے جب علاقائی تعصب کی بنیاد پر کسی کی حق تلفی کی جائے یا کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا جائے۔
ناجائزدستگیری(Undue Patronage) ایسی بدعنوانی ہے جس میں کسی فرد یا ادارے کی غیر واجب حوصلہ افزائی، مالی معاونت اور حمایت کی جائے یا اسے ایسا استحقاق دیا جائے جس کا وہ آئینی و قانونی طور پر حق نہ رکھتا ہو۔
کرپشن کی ایک قسم گرافٹ (Graft)بھی ہے ۔ یہ اصطلاح امریکہ سے برآمد ہوئی ہے ۔ اس کرپشن پر امریکہ میں تو کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے مگر خاص طور پر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں اسے کرپشن تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ اس قسم کی کرپشن میں حکمران سیاستدان یا طاقتور اداروں کے لوگ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی ایک شعبے یا علاقے کے لیے مختص فنڈز خاص مقاصد کے تحت دوسرے شعبوں یا علاقوں کو اس طریقے سے منتقل کر دیتے ہیں کہ ان کی یہ کرپشن اور واردات اس وقت منظر عام پر آتی ہے جب وہ اپنی حکمرانی یا طاقتور عہدہ رکھنے کی مدت پوری کر چکے ہوتے ہیں۔پاکستان میں چھوٹے صوبے، وفاق کے ہاتھوں اس قسم کی کرپشن کا اکثر شکار ہوتے رہتے ہیں۔

سطور بالا میں کرپشن یا بدعنوانی کی جن قسموں کا ذکر کیا گیا ہے ترقی یافتہ دنیا میں ان میں سے ہر قسم کو اتنی ہی بڑی اور بری بدعنوانی سمجھا جاتا ہے جتنا برا مالیاتی بدعنوانی کو تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کی مذکورہ بدترین قسموں کو نظر انداز کر کے صرف مالیاتی کرپشن اوراس کرپشن کے الزامات کی زد میں لائے گئے مخصوص سیاستدانوں کو بدعنوان قرار دیئے جانے پر تمام توانائیاں صرف کر دی جاتی ہیں۔جو سیاستدان اب تک مالیاتی بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آچکے ہیں ان کی ایک قسم تو وہ ہے جو ان الزامات کا عدالتوں میں سامنا کرنے کی بجائے بیرون ملک مقیم ہونے کو ترجیح دیتی ہے جبکہ دوسری قسم ان سیاستدانوں کی ہے جو عدالتی عمل سے گزر کر خود کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں۔ ان دو قسموں کے علاوہ کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے والے سیاستدانوں کی تیسری ایسی قسم بھی برآمد ہو چکی ہے جو کسی آئین ، قانون اور عدالت کی پرواہ کیے بغیر خود کو بد عنوانی سے پاک اور دوسروں کو بدعنوان قرار دینے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ چند ماہ پہلے تک لاڈلہ رہ چکی سیاستدانوں کی اس قسم کے متعلق یہ ابہام موجود ہے کہ جنہیں لاڈلہ ہونے کے مقام سے معزول سمجھا جارہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ابھی تک اسی مقام پر فائز ہیں۔کوئی ابھی تک کس مقام پرفائزہے یہ بات آنے والے چند دنوں میں واضح ہو جائے گی مگر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو لوگ خود بد عنوانی کے الزامات کی زد میں ہیں وہ کب تک دھڑلے سے دوسروں پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button