ColumnRoshan Lal

ہاکی سٹیڈیم کی نئی ٹرف .. روشن لعل

روشن لعل

 

نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور سے اکھاڑی گئی ٹرف سے متعلق لکھا گیا یہ کالم جب شائع ہو گااس وقت تک اکثر لوگ یہ بات فراموش کرچکے ہوں کہ کسی کھلاڑی نے کھیل کے ایک میدان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا۔ عین ممکن ہے کہ جس طرح یہاں ہاکی کے کھیل کی زبوں حالی کو نظر انداز کیا جاچکا ہے اسی طرح جلسے کے شرکا نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی بربادی اور وہاں سے اکھاڑی گئی ٹرف کی بے حرمتی سے بھی نظریں چرا کرحسب سابق صرف یہ یاد رکھیں کہ عمران خان کے ساتھ ان کی عقیدت کے کیا تقاضے ہیں۔ اگر عقیدت کے تقاضوں کے تحت یہاں عمل نہ کیے جارہے ہوتے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر وقت انصاف کی دہائی دینے والے لوگ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر ایک سیاسی جلسے کے انعقاد کے لیے آناً فاناً کسی کھیل کے میدان کی تباہی برداشت کر لیتے۔ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور سے آناً فاناً ٹرف اکھاڑے جانے کے حوالے سے ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کے عقیدت مندوں نے تو خاموش رہنا ہی تھا مگروہ لوگ اچانک نہ جانے کہاں غائب ہو گئے جو اکثر مفاد عامہ کے نام پر کبھی شریف فیملی اور کبھی زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی درخواستیں دائر کرنے والوں کی وجہ سے راقم کو بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے 2014 کے دوران موئن جو داڑو میں منعقد کیا گیا وہ سندھ فیسٹیول یاد آگیا جس کے صرف اعلان سے ہی کچھ خدائی خدمتگاروں نے موئن جو داڑو کے نقصان کی دہائی دیتے ہوئے ملکی میڈیا اور عدالتیں ہی نہیں بلکہ یونیسکو سے بھی رجوع کر لیا تھا مگر اب نیشنل ہاکی سٹیڈیم سے ٹرف اکھاڑے جانے کے بعدمذکورہ لوگوں میں سے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
2014 میں منعقدہ سندھ کلچرل فیسٹیول کے ذکر کے بعد یہ بتاناضروری ہوگیا کہ بلاول کی طرف سے اس فیسٹیول کے اعلان کے بعد ملک کے میڈیا ، کچھ وکیلوںاور آثار قدیمہ کے نام نہادماہرین نے انہیں انتہائی بے رحم تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ سندھ کلچرل فیسٹیول کے انعقاد کے دوران محض کچھ فرض کی گئی باتوں کی وجہ سے بلاول کو جو کچھ کہا گیا اگر اس کے تناظر میںان باتوں کو دیکھا جائے جو نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی ٹرف اکھاڑے جانے کے بعد عمران خان کے لیے کہی جارہی ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ کسی کے لاڈلہ ہونے یا نہ ہونے میں کیا فرق ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہورکی تعمیر سے قبل پاکستان میں صرف ہاکی کلب آف پاکستان ہی اس کھیل کا معیاری سٹیڈیم تھا۔ 1978 کا عالمی ہاکی کپ جیتنے کے بعد جب پاکستان نے عالمی سطح پر اس کھیل میں پے درپے فتوحات حاصل کیں تو پھر یہ ضروری سمجھا گیا کہ لاہور میں بھی بین الاقوامی معیار کا ایک ہاکی سٹیڈیم تعمیرکیا جائے۔ اس سٹیڈیم کی تعمیر سے قبل لاہور میں بین الاقوامی ہاکی میچ قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جاتے تھے۔ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور کی تعمیر کے بعد اس میں نہ صرف کئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ منعقد ہوئے بلکہ قومی ہاکی ٹیم کے بیرونی دوروں سے قبل تربیتی کیمپوں کے لیے بھی اسی سٹیڈیم کو ہی استعمال کیاجاتا رہا۔جب ہاکی کے کھیل میں پاکستان کا زوال شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی زبوں حالی کا بھی آغاز ہو گیا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی نے بھی دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی کے میدان اجاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دہشت گردی اور دیگر محرکات کی وجہ سے ایک عرصہ تک نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی ٹرف شکستہ ہونے کے باوجود تبدیل نہ ہو سکی۔جس دور میں نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی ٹرف کو شکستہ ہونے کے باوجود تبدیل نہیں کیا گیا تھا اس دور میں چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور مشرف صدر تھے۔ ایک طویل
عرصہ کے بعد نیشنل ہاکی سٹیڈیم کی سبز ٹرف کو نیلے رنگ کی ٹرف سے 2012کے اولمپک کھیلوں سے قبل اس وقت تبدیل کیا گیا جب قاسم ضیا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر تھے۔ شکستہ سبز رنگ کی ٹرف نیلے رنگ کی نئی ٹرف سے اس وجہ سے تبدیل کی گئی کیونکہ 2012 کے لندن اولمپک میں ہاکی کے میچ نیلے رنگ کی ٹرف پر کھیلے جانے تھے۔ لہٰذا وہاں شرکت کرنے والی قومی ہاکی ٹیم کی نیلے رنگ کی ٹرف پر تربیت کے لیے یہاں ہنگامی بنیادوں پر برطانیہ کے ہاکی گرائونڈز کے طرز کی ٹرف بچھائی گئی۔ 2012 میں بچھائی گئی اس ٹرف کی حالت 2017 تک اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ پنجاب سپورٹس بورڈ کی طرف سے اس کی تبدیلی کا مطالبہ سامنے آگیا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعلیٰ نیشنل سٹیڈیم میں ٹرف کی تبدیلی کی منظوری دے دی تھی مگر پنجاب میں عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ٹرف کی تبدیلی پنجاب حکومت کی ترجیح نہ بن سکی۔ پنجاب سپورٹس بورڈ نے صرف شہباز شریف کی حکومت ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی بزدار حکومت کے دوران بھی ٹرف کی تبدیلی کا کہا مگر اس کی درخواست کو درخوراعتنا نہ سمجھا گیا ۔ اب عمران خان کے نیشنل سٹیڈیم میں جلسہ کے لیے اس ٹرف کو اکھاڑدیا گیا ہے جس کی تبدیلی کا مطالبہ گزشتہ کئی برسوں سے کیا جارہا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور کی ٹرف اپنی معیاد پوری کر چکی تھی مگر اس کے باوجود اس پر جون اور جولائی 2022 میں ایشیا کپ اور کامن ویلتھ گیمز سے پہلے قومی ہاکی ٹیم کے ٹریننگ کیمپ لگائے گئے تھے۔
یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ کسی اور مقصد کے تحت نہیں بلکہ صرف عمران خان کے جلسہ کے لیے نیشنل ہاکی سٹیڈیم سے ٹرف اکھاڑ ی گئی۔ جب ٹرف اکھاڑی جارہی تھی ہاکی کے سابق معروف کھلاڑیوں نے ٹرف اکھاڑنے کے خلاف بیانات ضرور دیئے مگر میڈیا نے ان کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ مسلم لیگ نون کے عطا تارڑ نے ٹرف اکھاڑنے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں جو درخواست دی اسے عدالت نے یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا کہ جلسہ کی اجازت دینا یا نہ دینا ڈپٹی کمشنر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ عمران خان کے جلسہ کے لیے پرانی ٹرف اکھاڑ تو دی گئی مگر اس طرح کا کام کرنے سے پہلے ضابطوں کے تحت نئی ٹرف کی خریداری اوراسے لگانے کے لیے جو اقدامات کیے جانے ضروری تھے وہ نہیں کیے گئے۔ عمران خان کے نیشنل سٹیڈیم میں جلسہ کے بعد یہ خیال عام ہے کہ سٹیڈیم میں نئی ٹرف لگوانا اب چودھری پرویز الٰہی کی مجبوری بن چکی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں ، ہاکی کی بہتری کے نام پر چاہے کچھ ہوا یا نہ ہوا مگر ، عمران خان کے سیاسی فائدے کی وجہ سے آخر کار نیشنل ہاکی سٹیڈیم کو نئی ٹرف تو مل ہی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button