Editorial

وزیراعظم شہباز شریف کا قوم سے خطاب

 

وزیراعظم شہباز شریف نے دوبارہ میثاق معیشت کی پیش کش کرتے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی اور اب بطور وزیراعظم بھی خلوص دل سے اس کا اعادہ کرتا ہوں اور پیش کش کررہا ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھیٹ نہ چڑھنے دیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی سیاسی قیادت الیکشن پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل پر نظر رکھتی ہے، ہمارا سامنا بے رحم حقائق سے ہے، جن کا مقابلہ ہم قومی اتفاق رائے، پالیسیوں کے تسلسل، معاشی اور سیاسی استحکام سے ہی کرسکتے ہیں، سب سے بڑھ کر ہمیں خودی، خوداری اور خود اعتمادی کے اسی جذبے کو زندہ کرنا ہے جس نے پاکستان بنایا تھا، جو تحریک پاکستان کی اصل روح ہے۔ اسی جذبے سے تعمیر پاکستان ہوگی،14 اگست ایک یوم ہے، آئیں اس یوم پر ہم ایک قوم بن جائیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے قوم سے خطاب میں جہاں 75سال میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا ذکر کیا وہیں ملک کو درپیش معاشی مسائل پر بھی بات کی اور دوبارہ میثاق معیشت کی پیش کش کی۔ بلاشبہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے خطاب میں وہ تمام باتیں کہیں جو کم و بیش ہر پاکستانی یوم آزادی مناتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہمارے اسلاف نے 75سال پہلے انگریزوں سے تو آزادی حاصل کرلی اور آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہم آسمان کی جانب اونچی اڑان بھی بھری مگر رفتہ رفتہ وہ ترقی زمین بوس ہوتی نظر آرہی ہے۔ اِس کی کتنی ہی وجوہات ہیں اور وزیراعظم شہبازشریف نے بیشتر وجوہات کا ذکر بھی کیا ہے مگر کیا بعد میں آنے والی قیادت کو کیا قوم کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ملک نہیں بنانا چاہیے تھا جو بیک وقت اب بے شمار مسائل میں گھرا ہواہے اور جن میں سب سے بڑے مسائل معاشی اور سیاسی ہیں اور درحقیقت یہ دونوں مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو ہی معاشی استحکام آئے گا اور قوم خوشحال ہوگی۔دو روز قبل ہی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر ہائوس لاہور میں سنیئر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں سب ٹھیک نہیں ہورہا اور صدر مملکت کی گفتگو سے موجودہ سیاسی عدم استحکام کی واضح عکاسی ہورہی تھی اور پھر وزیراعظم میاں شہبازشریف نے بھی ایک بار پھر میثاق معیشت کی بات کی ہے اور بلاشبہ میثاق معیشت تبھی ہوسکتا ہے جب میثاق جمہوریت ہو اور میثاق جمہوریت کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنا کردار ادا کرنے کی پیش کش کردی ہے ، اس کے بعد سیاسی قیادت کی طرف سے
حالات کی سنجیدگی اور ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیش رفت کرنا باقی ہے اور ہم سمجھتے ہیں اور دعا گو بھی ہیں کہ اس معاملے پر فی الفور مثبت پیش رفت ہونی چاہیے کیونکہ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے اور نتیجے میں سیاسی اور معاشی مسائل اب قابو سے باہر ہوتے نظرآرہے ہیں جو یقیناً حالات کی سنگینی ظاہر کررہے ہیں ، جب ہم سیاسی قیادت کی بات کرتے ہیں تو ان سے گذارش کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت اُس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن اور ذمہ دار ہوتی ہے،مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں بسااوقات سیاسی مسائل اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ قومی سطح کے داخلی اور خارجی مسائل سے زیادہ اہمیت اور ترجیح لے لیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بجا فرمایا ہے کہ ہم 75 برس میں اصل مقصد کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ یوم آزادی کے موقع پر دل تو مسرور ہیں لیکن بے چین بھی ہیں اور اس بے چینی کی واحد وجہ ہمارا سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن ہم اُن سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں کیونکہ ہر سطح پر موجود باہمی مسائل ہماری توجہ داخلی مسائل سے ہٹاتے رہے ہیں اسی لیے ہم بحرانوں سے دوچار ہیں ، خود دار قوم کی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن آج تک ہم اُن سے فائدہ نہیں اٹھاسکے اور انتہا تو یہ ہے کہ قائد اعظم نے جس ہجوم کو ایک قوم بنایا تھا آج پھر وہ انتشار کی طرف جارہی ہے کیونکہ قوم کو ایسی قیادت میسر نہیں جس کی آواز پر قوم کان دھرتے ہوئے خود داری کے فارمولے پر عمل کرے ہم تہیہ کریں کہ اپنے ملک کو معاشی خودانحصاری کی طرف لے کر جائیں گے اور اس کے لیے اپنے حصے کا کام مکمل کریں گے اور اپنی ہر ذمہ داری بھی پوری کریں گے، آج دنیا نے ثابت کیا ہے کہ وہی ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جو خودانحصاری کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اس پر پوری تندہی سے عمل کرتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ہم کسی بحران سے دوچار ہوئے ہیں بطور قوم ہم نے اس بحران کا بھرپور مقابلہ کیا ہے مگر موجودہ حالات میں سب سے پہلے سیاسی قیادت کا ایک پیج پر آنا ضروری ہے کیونکہ سیاسی قیادت نے ہی ملک و قوم کی سمت کا تعین کرنا ہے مگر آج ہم جیسی کج بحثی میں الجھے ہوئے ہیں اس کا نقصان صرف ملک کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ہورہا ہے اس لیے اشد ضروری ہے کہ سیاسی قیادت پہلے خود باہمی اختلافات ختم کرکے ایک پیج پر آئے اورپھر قوم کوبھی ایک قوم بنائے۔ تصور کیاجانا چاہیے کہ بانیان پاکستان جنہوں نے عوام کو متحد کرکے جمہوری طریقے سے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور قائد اعظم محمد علی جناح نے بار ہا سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو وہ راہ دکھائی جس کو وہ کامیابی اور ترقی کی راہ سمجھتے تھے کیا آج ہم اس راہ پر گامزن ہیں یا بھٹک چکے ہیں اور کیا ہمارے بعد آزاد ی حاصل کرکے ترقی کرنے والے ممالک ہمیں نظر نہیں آتے اور ہمیں اپنی ناکامی کی وجوہات پر افسوس ہوتاہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button