ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان ، مائیکرواور چیک ڈیمز کی ضرورت ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

یہ بات درست ہے کہ قدرتی آفات سے مقابلہ انسانی دسترس سے باہر ہے البتہ ان آفات سے نبروآزما ہونے کے لیے اقدامات تو کئے جا سکتے ہیں۔بلوچستان میں سیلاب کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے 2012,2011 اور 2013 کی تباہ کاریاں لوگوں کو یاد ہیں جب مون سون کی بارشوں نے اس پسماندہ صوبے میں وہ تباہی مچائی جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ بدقسمتی سے ہر لحاظ سے ترقی کے معاملے میں ملک کے دوسرے صوبوں سے ہمیشہ پیچھے رہا ہے۔آج کل بلوچستان ایک مرتبہ پھر سیلابی تباہ کاریوں کے گرداب میں ہے۔ملک بنے پون صدی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے نہ تو وفاق کی سطح پر اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے یہاں سیلابی تباہ کاریوں کی روک تھام کے لیے ممکنہ اقدامات کی ضرورت محسوس کی گئی جس کے نتیجہ میں مون سون میں پہاڑی علاقوں سے بارشوں کا پانی میدانی علاقوں کی طرف آنے سے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ صوبے میں سیلابی تباہ کاریوںسے امسال طوفانی بارشوں سے لسبیلہ، ژوب، جھل مگسی، لورالائی، بارکھان، کان متہزئی ،چاغی اور نوشکی کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں میں تباہی سے ہلاکتوں کے علاوہ، مال مویشی اور مکانات گرنے سے ہزاروں لوگ چھتوں سے محروم ہوگئے۔متاثرہ علاقوں میں اس وقت خوراک، ادوایات اور خیموں کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے کی یہ ذمہ داری ہے وہ متاثرہ عوام کو ممکنہ امداد بہم پہنچائے اس کے باوجود سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو بہت زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔جہاں تک ایسے مواقع پر غیرملکی این جی اوز کی طرف سے متاثرہ لوگوں کی امداد کی بات ہے جب تک وفاق میں قائم این ڈی ایم اے کی طرف سے بیرون ملکوں میں این جی اوز سے درخواست نہیں کی جاتی غیر ملکی تنظیموں کی طرف سے سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کو براہ راست امداد ممکن نہیں ۔حیرت تو اس پرہے سول اورکسی حکومت نے صوبے میں مون سون کی بارشوں کے سیلابی ریلوں سے نبروآزما ہونے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی۔قانونی طور پر بلوچستان میں اس تباہی سے متاثرہ لوگوں کی امداد کا مینڈیٹ پی ڈی ایم اے کے دائرہ اختیار میں آتا ہے مالی وسائل کے فقدان سے پی ڈی ایم اے اتنی بڑی تعداد میں متاثرہ لوگوں کے امداد کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اگروہاں کی صوبائی حکومتیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتی تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں مون سون کی بارشوں سے اتنی بڑی تباہی نہیں ہو سکتی تھی۔ بلوچستان میں حالیہ سیلابی تباہ کاریوں بارے راقم نے اپنے ایک مہربان سابق سنیئر بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر جو وفاق میں پہلے این ڈی ایم اے کے سول چیئرمین رہ چکے ہیں اور کئی عشروں تک اس صوبے میں کمشنر ،ڈپٹی کمشنر اور صوبائی سیکرٹیری کے عہدوں پر کام کر چکے ہیںسے لندن میں رابطہ کرکے صوبے کے حالات بارے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پر اعتماد لجے میں بتایا مون سون کے پانی کے ریلوں سے آبادی کو ممکنہ حد تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے،انہوں نے تجویز دی پہاڑوں سے میدانی علاقوں کی طرف بارشوں کے پانی کو روکنے کیلئے صوبے میں منی ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے جس میں پہلے مرحلے کے طور پر مائیکرو ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے کم ازکم چار ہزار مائیکرو ڈیم اس طرح بنائے جا سکتے ہیں کہ زمین میں تین فٹ چوڑا اور تین ہی فٹ گہرا گڑھا بنا کر اس میں مٹی بھری جائے ۔جب یہ کام مکمل ہو جائے تو اس میں پودے لگائے جائیںاور ہر سو فٹ پر ایک پودا لگایاجائے۔چیک ڈیم بنانے کے لیے کم ازکم 25 فٹ پتھر کی دیوار بنانے کے بعد بارش کے پانی کو سٹور کر لیا جائے۔ یہ کام دو چار ایکٹر اراضی میں کرنے سے برساتی پانی کے ساتھ جومٹی آتی ہے اس سے زرعی پیداوار کی جا سکتی ہے۔چنانچہ پتھر کی دیوار بنانے سے برسانی پانی جو پہاڑوں سے میدانی علاقوں کی طرف آتا ہے دیوار بنانے سے میدانی علاقوں کی طرف نہیں جائے گا۔ڈاکٹر قادر کے بقول برسانی پانی سے سیلاب آنے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ڈیمز کا نہ ہونا ہے۔اگر صوبائی حکومت وہاں مائیکرو اور چیک ڈیمز بنائے تو
یہ ڈیم برسانی پانی کو روک کر اپنے اندر جذب کر لیں جس سے زمین کی زرخیزی سے زراعت کا کام ہو سکتا ہے۔ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کے اعتبار سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اسی لیے تو این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت کم پیسے ملتے ہیں۔آبادی کم ہونے سے اس صوبے کو این ایف سی ایوارڈ کا کل 5/6 فیصد حصہ ملتا ہے جو صوبے کے ترقیاتی کاموں کیلئے ناکافی ہے۔ بلوچستان تعلیمی لحاظ سے بھی بہت پسماندہ ہے وفاقی حکومت صوبے کے طلبہ اور طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہے تو وہاں کے طلبہ اور طالبات کو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ دے کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔یہ اور بات ہے وہاں کے سرداروں اور نوابوں کے بچے تو لاہور کے تعلیمی اداروں میں ملک کے وجود میں آنے سے پہلے کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اگر وفاقی حکومت مالی اعتبار سے کمزور والدین کے بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانا چاہے تو اس کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ صوبہ سیاسی حکومتوں کی ناقص پالیسوں سے ہر لحاظ سے ہمیشہ نظرانداز رہا ہے۔اس وقت بے روز گاری صوبے میں عروج پر ہے یہاں صعنتیں لگانے کا کوئی تصور نہیں ہے عام طور پر غریب لوگوں کو ذریعہ معاش مال مویشی پال کر ان کی فروخت سے جو آمدن ہوتی ہے اسی پر ان کا دارو مدار ہے۔ جہاں تک بلوچستان میں سیلابی پانی سے مکانات گرنے کے بعد ان کی ازسرنو تعمیر کا معاملہ ہے وفاقی حکومت یو این او ایجنسی سے درخواست کرکے مہندم ہونے والے مکانات کی تعمیر کا کام کرایا جا سکتا ہے۔متاثرہ افراد کی امداد میں وہاں کے نوابوں میں سردار اختر مینگل، میر ہمایوں، نواب مگسی اور جمیل مگسی جیسی شخصیات اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں۔وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے کچھ امداد کا اعلان کیا ہے مگر جب تک بارشوں کے پانی کو روکنے کا مستقل بندوبست نہیں کیا جاتا اس وقت تک مون سون میں ایسے نقصانات سے بچا نہیں جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button