ColumnMoonis Ahmar

 حکومت کی تبدیلی کے بعد گہرا بحران .. پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر
تاریخی طور پر کسی بھی پاکستانی وزیر‎ اعظم نے پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی ۔ قتل کیا گیا، پھانسی پر لٹکایا گیا، یا مارشل لاء کے نفاذ کے ذریعے یا 8ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر کے ذریعے ہٹایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے غیر ملکی سازش کے الزامات کے باوجود اس بار حکومت کی تبدیلی کا طریقہ آئینی تھا۔‎ برٹانیکا نے حکومت کی تبدیلی کو’’بیرونی طاقت کے ذریعے ناجائز سمجھی جانے والی حکومت کا تختہ الٹنا اور اس قوت کے فروغ کردہ نظریات یا مفادات کے مطابق ایک نئی حکومت کے ساتھ تبدیل کرنا‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
کیمبرج لغت حکومت کی تبدیلی کو’’حکومت کی مکمل تبدیلی، خاص طور پر طاقت کے ذریعے کی جانے والی تبدیلی‘‘کے طور پر بیان کرتی ہے۔‎مغربی جمہوریتوں میں منتخب حکومتوں کو عدم اعتماد کے ووٹ یا عوامی احتجاج کے ذریعے ہٹایا جاتا ہے، جو اقتدار میں موجود پارٹی کو آئینی ذرائع سے حکومت یا ریاست کے سربراہ کو تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت مغرب نے پوتن کے یوکرین پر حملے کے بعد روسی سٹیک ہولڈرز پر دباؤ ڈال کر روسی حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری طرف ماسکو نے مغرب نواز یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کو ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کیوں ہوئی اور عمران خان کی برطرفی کے بعدمُلک کا اندرونی بحران کیسے گہرا ہوا۔‎ پاکستان کی تاریخ بنیادی طور پر غیر آئینی اقدامات کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم عمران خان کے اپوزیشن رہنماؤں کی ملی بھگت سے امریکی سازش کے الزامات قابل بحث ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو خبردار کیا کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئے تو اس کے مضمرات ہوں گے۔ خان کے الزامات کو اپوزیشن نے مسترد کر دیا اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید واضح کیا کہ غیر ملکی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا،‎ اب جبکہ عمران خان کو ایک درجن کے قریب سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت نے ہٹا دیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ تنقیدی تجزیہ کیا جائے کہ کس طرح حکومت کی تبدیلی نے پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان بدعنوان، انتقامی اور ناکارہ پی ٹی آئی حکومت کے بغیر بہتر ہے اور آنے والے بحران سے متعلق الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ تاہم چیزیں اتنی سادہ نہیں کیونکہ حکومت کی تبدیلی نے ملک میں سیاسی بحران کو بڑھا دیا ہے اور ملک معاشی بدحالی کا سامنا کررہا ہے۔
حکومت کی تبدیلی نے بحران کو کس طرح گہرا کیا، اس کا تجزیہ دو طریقوں سے کرنے کی ضرورت ہے۔‎ سب سے پہلے، اب زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ دو ماہ پہلے ان کی حالت بہتر تھی کیونکہ موجودہ حکومت نے گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے علاوہ مسلسل پٹرول اور ڈیزل بم گرائے ہیں۔ اگر یہ صورتحال بہتر نہ ہوئی تو متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔ عوام پاکستان کو ڈیفالٹ اور معاشی تباہی سے بچانے کے بہانے 2022-23 کے وفاقی بجٹ کے تحت لگائے گئے ٹیکسوں پر بھی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ تاہم درآمدات میں ابھی تک کمی نہیں آئی۔ غیر ضروری سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کرنے والے وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا، اس سے حکمران اشرافیہ کے دوہرے معیارات کا پردہ فاش ہوتا ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب عوام سے کہا جاتا ہے کہ حکومت کو سنگین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے روکھی سوکھی کھانے کو
کہا جائے، حکمران اشرافیہ مسلسل اسراف میں ملوث ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ کانفرنس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ قومیں محض سطحی دعوؤں یا کھوکھلے تصورات سے نہیں بلکہ محنت، دیانت اور ذہانت سے بنتی ہیں۔‎
وفاقی بجٹ کے معاشی نقصانات اور حکمران اتحاد کی جانب سے محصولات پیدا کرنے کے لیے اپنائے گئے دیگر اقدامات نے پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کو عزت سے آئندہ الیکشن میں جانے کا راستہ فر اہم کیا ہے ،اگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیتی تو اسے 2023 کے عام انتخابات جیتنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی کیونکہ اس کی غیر موثر اور فاشسٹ طرز حکمرانی عوام پر عیاں ہو چکی ہوتی۔ تاہم اب عوام حکومت کی تبدیلی کے پیچھے کی وجہ پر سوال اٹھا رہے ہیں اور مسلم لیگ نون عوام میں مقبولیت کھو رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کسی حد تک مسلم لیگ نون کی قسمت کا تعین کریں گے۔‎
اپنے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ اب مسلم لیگ نون کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ لوگ پہلے ہی آنے والوں سے مشتعل ہو چکے ہیں۔مسلم لیگ نون صرف پی ٹی آئی کی سابق حکومت پر الزام لگا کر موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکامی کی ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کر سکتی۔ لاہور میں ضمنی انتخاب کی تقاریر کے دوران، عمران خان نے ان لوگوں پر تنقید کی جنہوں نے حکومت کی تبدیلی کی سازش پر امریکہ کا ساتھ دے کر ملک کی خودمختاری پر سمجھوتہ کیا۔ وہ ان کے جذبات پر کھیل کر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
تاہم عمران خان بھی اپنے عہدہ کے دوران نااہلی، بدعنوانی، اقربا پروری، سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے،انتقامی کارروائیوں،انا پرستی، تکبر اور دوسروں کے ساتھ اہانت آمیز رویے سے خود کو بری نہیں کر سکتے۔‎ دوسرا یہ خیال کہ حکومت کی تبدیلی مکمل طور پر آئینی طور پر سویلین حکومتوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان نہیں تھی اور ان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کے تحت ملکی قوتوں کی ملی بھگت سے ہوئی۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کو بار بار سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں کا سامنا رہا ہے کیونکہ جمہوریت کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ ملک کی فلاح و بہبود اور عوام کی بھلائی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہم ایسی حکومت کے تحت پاکستان کے ‘ٹرن آراؤنڈ کی توقع نہیں کر سکتے جو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے، گڈ گورننس کو یقینی بنانے اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہو۔ بلکہ اس نے پاکستان کے 220 ملین عوام کو ایک گہرے معاشی بحران میں
دھکیل دیا ہے۔
(پروفیسر ڈاکٹر مونس احمرکی انگریزی تحریر کا اُردو ترجمہ بین الاقوامی یونیورسٹی جاپان کے ڈاکٹر ملک اللہ یار خان نے کیا ہے۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button