ColumnNasir Sherazi

دنبہ دور نکل گیا .. ناصر شیرازی 

ناصر شیرازی
موسمی اعتبار سے اسلام آباد مری بنا ہوا ہے جبکہ لاہور میں بادل اور برسات نے اِسے اسلام آباد بنادیا ہے، سیاسی موسم ملک بھر میں ایک جیسا ہے، اسلام آباد کے ایک محل نما گھر میں نیو سراج الدولہ معزول ہوکر ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ اس کے آس پاس تک تُک بندی کرنے والے شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کا مجمع ہے۔ ہدایت کار انہیں موقعہ محل اور وقت کی نزاکتیں سمجھاتے ہوئے نئے سیاسی نغمے تخلیق کرنے کے حوالے سے اعتماد میں لے رہا ہے، ماضی میں تیار کئے گئے سیاسی نغموں میں بتایا جاتا تھا کہ بس وہی ہے مرد ِ میدان، ناقابل تسخیر وہ آئے گا تو ملک کی قسمت بدل جائے گی، پس اگر اپنی اور ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ چلو، وقت نے پلٹا کھایا اور تخت سے تختہ ہوگیا، سب راگ اور راگنیاں پٹ گئے، نئے نغموں میں بتایا جائے گا کہ وہ مظلوم بے سہارا ہے، اس نے اپنا سب کچھ آپ کے لیے لٹا دیا ہے، بس وہی ہے جسے عدالت نے صادق و امین کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے باقی سب دروغ گو اور فراڈیئے ہیں، پرانے فنکاروں کے ساتھ ساتھ نئے شوقیہ فنکاروں کو بھی چانس دیا جارہا ہے مگر بلا معاوضہ، رونے دھونے والے گانے اور غزلیں گانے والوں کی ویکینسیاں زیادہ ہیں، زیادہ تر فنکاروں کو روٹی، کپڑے اور موبائل فون کارڈ پر قومی خدمات انجام دینے کے لیے رضا مند کرلیا گیا ہے،
دیگر تمام کام بھی باہمی رضا و رغبت سے انجام پارہے ہیں، نتیجہ نو ماہ بعد سامنے آئے گا، ایک دو ماہ آگے پیچھے بھی ہوسکتے ہیں، اقتدار سے بیدخلی کے بعد سوا مہینہ سوگ منانے کے بعد، بال کھوکر بین کرنے اور گریبان چاک کرنے والوں نے نیا پینترہ بدلا ہے، پہلے کہتے تھے امریکہ نے سازش کی، اب کہتے ہیں میاں ہمیں معاف کرو، ہم سے غلطی ہوئی گویا جس عطار کے لونڈے سے دوا لیکر بیمار ہوئے اب اس کی ہی دعائیں چاہتے ہیں بلکہ خواہش ہے کہ وہی عطار انہیں ایک مرتبہ پھر گود لے لے، اپنا متبنی بنالے، دوسری طرف کی خبر یہ ہے کہ عطار بہت سیانا ہے، اس نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں وہ آئندہ دس برس کی منصوبہ بندی کرچکا ہے، میدان میں موجود کھیلنے کی صلاحیت رکھنے والے اور صحت کے اعتبار سے فٹ کھلاڑیوں کو مطلع کیا جاچکا، عید کے فوراً بعد انٹرویوز شروع ہوجائیں گے، سنیئر و تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان کھلاڑیوں کو بھی موقعہ دینے کا فیصلہ کیاگیا ہے، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ٹیم میں ایسے کھلاڑی نہ شامل کیے جائیں جن کا میچ شروع ہوتے ہی مسل
پُل ہونے کا خطرہ ہو، جن کا پٹرول عین ٹائم پر ختم ہوجائے یا ٹائر پنکچر ہوجائے اور سٹپنی میں بھی پہلے سے تین پنکچر ہوں۔
نئے سیاسی ٹورنامنٹ کی تیاریوں کے حوالے سے اِسے پاکستان پولیٹیکل چمپئن شپ کا نام دیاگیا ہے، مجموعی طور پر ایک سو کے قریب ٹیمیں شرکت کی خواہش رکھتی ہیں لیکن ابتدائی رائونڈ کے بعد قریباً پندرہ ٹیمیں میدان میں نظر آئیں گی، اچھے کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوچکا، کئی نامور، کئی بدنام زمانہ کھلاڑی اپنی پرانی ٹیموں سے تعلق توڑ بیٹھے ہیں، ان کے کان دروازے کی دستک اور موبائل فون کی بیل پر لگے ہوئے ہیں،ہر کھلاڑی کو ایسے فون کا انتظار ہے، جس سے کال کرنے والے کا نام یا تصویر سکرین پر نظر نہیں آتی بس ایک ستارہ نمودار ہوتا ہے، اسی ستارے کو دیکھنے کے لیے کئی کھلاڑی رات بھر جاگ کر گذارتے ہیں، اس ستارے کی طرف سے کال عموماً رات گئے آتی ہے جسے اپنے فون کی سکرین پر یہ ستارہ نظر آجائے وہ اِسے خوش بختی کی علامت سمجھتا ہے،
اُسے یقین ہوجاتا ہے کہ اُس کے مقدر کا ستارہ اب چمک اٹھے گا، پس وہ اسی روز سے چمک اکٹھی کرنے کا کام شروع کردیتا ہے، وہ وخوب جانتا ہے کہ بغیر چمک کے دمک نہیں آئے گی، دمک کے بغیر دھمک بھی بے کارہوتی ہے، کھلاڑیوں کی بہت بڑی تعداد میانوالی ٹیم سے الگ ہوکر بیگم والی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے والی ہے، بیشتر کھلاڑی سوچتے ہیں کہ دوسری ٹیم میں جاکر انہیں وزیراعظم پاکستان بننے کا موقعہ مل سکتا ہے جو کھلاڑی کا خواب ہے، یہ خواب بیگم والی ٹیم میں پورا ہونے کے امکانات یوں بھی زیادہ ہیں کہ ٹیم کے مالک خود وزیراعظم بننے میںدلچسپی نہیں رکھتے، انہوںنے اِس سے پہلے دو مرتبہ اپنے گھر کو چھوڑکر اپنے صوبے کو چھوڑ کر پنجاب سے دو وزیراعظم دیئے جبکہ انہیں بات کا پکا، قول کا سچااور وہیار کا کھرا آدمی سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اب ڈھلتی عمر کے ساتھ زیادہ ذمہ داریاں نہیں اٹھانا چاہتے، وہ عرصہ ہوابھنڈی گوشت پر قناعت کرچکے ہیں اوراب بھنڈی گوشت ہی ان کی پہلی تو نہیں آخری محبت ہے۔ ان کی پہلی محبت کا انجام دلدوز تھا، خداان کی آخری محبت اور آخرت اچھی کرے، جنرل پرویز مشرف کی بستر علالت سے جاری کردہ تصویر اور صحت کی تفصیل جاننے کےبعد بھی کسی کو آخرت یاد نہیں آرہی حالانکہ ہر شخص دوسرے شخص کو صبح سے شام تک آخرت کی نشانیاں بتاتا اور دکھاتا رہتا ہے بلکہ ان سے ڈراتا رہتا ہے، لیکن اس کے عمل سے لگتا ہے جیسے اُسے آخرت کا کوئی ڈر نہیں،
شاید اس نے اپنی حکمت عملی کے تحت اس روز کے لیے کوئی پرچی سنبھال رکھی ہے، بعض علما نے اس ڈر و خوف کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، برس ھا برس بیت گئے یہ سنتے ہوئے کہ قربانی کے دنبے پر بیٹھ کر پل صراط بہ آسانی پار ہوجائے گا ، شاید یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی آتے ہی ہر متمول شخص دنبے کے پیچھے بھاگتا نظرآتا ہے، فلسفہ قربانی کی طرف دھیان بہت کم لوگوں کا ہے،اہمیت تو نبی اللہ اور اُن کے صاحبزادے کے مابین گفتگو کی تھی، نبیؑ نے فرزند سے کہا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اپنی عزیز ترین شے قربان کرنے کا حکم ہوا ہے، فرزند عظیم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خدا کے لیے اس میں دیر نہ کیجئے، باپ نے بیٹے کو ساتھ لیا اور اُسے قربان کرنے کے لیے چھری اُس کی گردن پر چلادی، نبی اللہ اور فرزند نبی امتحان میں کامیاب ٹھہرے، خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے فرزند ِ نبی کی گردن بچالی اور چھری دنبے کی گردن پر چل گئی، ہم عجیب قوم ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے ہر وقت تیار رہنے کی بجائے دنبے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، دنبہ آگے آگے بھاگتا بھاگتا ہمیںجانے کہاں لے گیا ہے۔
قربانی صاحبان نصاب کے لیے ہے، فرض ہے، نمائش نہیں، ہم نے اپنے فرض کو پہچانا ہوتا تو غربت کے ہاتھوں فاقوں سے مجبور عمر رسیدہ شخص وہاڑی میں ریل کی پٹڑی پر چلتی ٹرین کے سامنے اپنا سر کیوں رکھ دیتا، ریل کے پہیے نے اس کا سرتن سے جدا کردیا، میں نے سوشل میڈیا پر سر الگ اور دھڑ الگ دیکھا ہے، آپ نے بھی یقیناً دیکھا ہوگا، اُس بزرگ کے چہرے پر بعد ازمرگ سکون تھا، خود داری کی طمانیت تھی، وہ خودکشی کرنے پہنچا تو صاف ستھرا نیلے رنگ کاشلوارقمیص پہنے تھا جو اپنی عمر پوری کرکے تار تار ہوچکا تھا، اس کی جیب خالی تھی وہ دو روز سے بھوکا تھا، اس نے کسی امیر کبیر وزیر یا مشیر کے سامنے دل سوال دراز نہ کیا، شاید وہ جانتا تھا کہ اُسے کتنے دھکے پڑیں گے، وہ کسی یوٹیلٹی سٹور سے وزیراعظم ریلیف پیکیج کے تحت آٹا، چینی، دال و گھی خریدنے کی اسطاعت نہ رکھتا تھا، اُسے دو ہزار روپے کی سرکاری مدد کے حصول کے لیے بذریعہ کمپیوٹر یا ایس ایم ایس رجسٹریشن کرانا بھی نہ آتی تھی، وہ صرف جان دے سکتا تھا، اُس نے جان دے دی، مجھے اِس کا افسوس ہے لیکن زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ دنبہ دور نکل گیا ہے، قربانی کا فلسفہ پیچھے رہ گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button