Columnمحمد مبشر انوار

معاش کے نئے افق .. محمد مبشر انوار 

پاکستان کو ابتداء سے ہی بحرانوں کا سامنا رہا ہے اور ہنوز اسے بحرانوں کی سرزمین ہی کہا جاتا ہے کہ بمشکل چند ہی سال ایسے کہہ سکتے ہیں جب پاکستان میں سکون رہا ہو،عوام کی مشکلات بالخصوص معاشی مشکلات کم رہی ہوں۔ ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کا جو شوروغوغا رہا ہے،جو کہ حقیقتاً پاکستان میں صنعتی ترقی کا دور کہلاتا ہے،اس دور میں بھی محنت کش کی جو معاشی صورتحال رہی،اس نے ایوب دور کو بائیس خاندانوں کا ملک قرار دیا۔ پاکستان میں محنت کش کے لیے دووقت کی روٹی کا حصول،بچوں کی تعلیم و تربیت حتیٰ کہ اپنی صحت،جس کی بدولت وہ کارخانوں؍صنعت کا پہیہ رواں رکھ سکتا،یہ بنیادی سہولت بھی میسر نہیں رہی۔ بائیس خاندانوں کی اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے بھٹو نے سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگا کر ان چلتی صنعتوں کو کیا قومیایا، پاکستان کی صنعتی ترقی کو یکدم بریکیں لگ گئیں،
گو کہ بھٹو کا مقصد قطعی یہ نہیں تھا کہ صنعتی ترقی رک جائے البتہ یہ ضرور تھا کہ محنت کش کو اس کا حق ضرور ملے۔ تاہم اپنی اس کوشش میں بھٹو نے محنت کش یونین لیڈرز کے لیے ایسے دروازے کھول دئیے کہ تھوڑی بہت عقل،سمجھ بوجھ رکھنے والا محنت کش،صنعتکار کیا،افسر شاہی کو بھی آنکھیں دکھانے لگا،اپنے حقوق کے حصول میں وہی محنت کش جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا تھا،بالخصوص محنت کش یونین کے لیڈرزنے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بعینہ ویسے ہی ان یونینز سے ذاتی مفادات کشید کئے،جیسے پاکستان میں بالعموم ہوتا ہے،جبکہ وہ محنت کش جو کل بھی دووقت کی روٹی کے لیے ترستا تھا،وہ ہنوز اسی کشمکش کا شکار ہے۔
دوسری طرف بھٹو دور میں خلیجی ممالک سے تیل کی دولت کیا نکلی،خلیج کے حالات یکسر بدلنا شروع ہو گئے اوریہاں تیل سے متصلہ افرادی قوت کی ضرورت بڑھتی گئی ،علاوہ ازیں!اس ریگستان میں تعمیراتی میدان میں ایک بڑی منڈی ظہور پذیر ہوئی،جہاں محنت کشوں کے لیے معاش کی ایک نئی جنت پیدا ہوئی اور دنیا بھر سے محنت کشوں نے اس خطے کا رخ کرنا شروع کیا۔ بھٹو دور سے پہلے پاکستانیوں کے لیے پاسپورٹ کا حصول ہی ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا اور بالعموم بہترین معاشی حیثیت رکھنے والے افراد ہی پاسپورٹ حاصل کرنے کے اہل تصور ہوتے تو دوسری طرف پوری دنیا میں پاکستانیوں کے لیے ویزے کا حصول کوئی بڑی بات نہ تھی کہ جو صاحب حیثیت پاسپورٹ رکھتے تھے،ان کے متعلق بیرونی دنیا میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ خصوصی اہمیت کے حامل افراد ہیں لہٰذا انہیں دنیا کے کسی بھی خطے میں قبل از وقت سفر ویزے کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ ائیرپورٹ پر ہی انہیں ویزا مل جایا کرتا تھا۔ خلیج میں افرادی قوت کی مانگ بڑھنے سے بھٹو نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور بھٹو نے پاکستانی افرادی قوت کو بلا امتیاز پاسپورٹ کا اجراء کیا اور اس کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک میں اپنے تعلقات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ،پاکستانی افرادی قوت کے لیے معاش کے دروازے کھلوائے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو ان ممالک میں محنت مزدوری کے لیے بھیجا۔
یہ بھٹوکی دوربینی اور ذاتی تعلقات تھے کہ خلیجی ممالک میں ایک طرف نہ صرف پاکستانی افرادی قوت کو یہاں بھیج کر ان کے لیے معاش کے مواقع پیدا کئے بلکہ پاکستان کے لیے قیمتی ترین زرمبادلہ کا بندوبست بھی کیااور آج کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی رگوں میں یہ زرمبادلہ خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کو ایسے حکمران میسر رہے ہیں،جنہوں نے پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر پاکستانیوں کے لیے زندگی اجیرن کررکھی ہے اور یہاں مہنگائی اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے لیکن حکمرانوں کا رویہ یہ رہا ہے کہ وہ ببانگ دہل یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر عوام کو پاکستان میں روزگار نہیں ملتا تو وہ بیرون ملک چلے جائیں۔بہرحال پاکستانی اپنی سخت محنت کوشی کے باعث خلیج ممالک میں ان کی طلب میں بہت زیادہ رہی ہے کہ پاکستانی محنت کش سخت حالات میں بھی تن آسانی کو تج کر ایمانداری سے رزق حلال کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ خلیج کی سخت ترین گرمی بھی پاکستانی محنت کشوں کو اپنا خون پسینہ بہانے سے گریز نہیں کرتے اور اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے رزق کو حلال کرتے ہوئے نہ صرف اپنے اہل خانہ کے لیے رزق کماتے ہیں بلکہ پاکستانی معیشت کو مسلسل خون فراہم کرتے ہیں۔گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستانیوں کی اکثریت پاکستان کے حالات سے تنگ آ کربیرون ملک ہجرت کر رہے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان میں مواقع دن بدن سکڑتے جا رہے ہیںکہ حکمران روزمرہ زندگی کے کاروبار میں براہ راست ملوث ہو کر ،عام پاکستانیوں کے لیے حالات مخدوش کرتے جا رہے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بھٹو دور سے افرادی قوت کی درآمد میں اب طریقہ کار بدل رہا ہے کہ پہلے تو ایک عام محنت کش یا مزدور اپنی روزی کے لیے بآسانی خلیج ممالک میں آتا اور بغیر کسی تربیت کے یہاں روزگار کا حصول اس کے لیے ممکن ہو جاتا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ٹیکنالوجی نے عام محنت کش کے لیے سخت مقابلے کی فضا پیدا کر دی ہے۔دیگر افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک نے مستقبل کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قبل از وقت منصوبہ بندی کی اور اپنی افرادی قوت کو ممکنہ ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے اقدامات کئے جبکہ ہمارے ارباب اختیار نے اس طرف کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہ دی اور توکل اللہ افرادی قوت برآمد کرتے رہے لیکن اب یوں افرادی قوت کو برآمد کرنا مشکل تر ہوتاجارہا ہے۔ خلیجی ممالک نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہاں قوانین انتہائی سخت کر دئیے اور وہ پاکستانی جو کسی زمانے میں آزاد ویزا پر خلیج میں آ کر اپنے کاروبار کیا کرتے تھے،ان کے لیے حالات سنگین تر ہوچکے ہیں کہ یہاں پر رہائشی اجازت نامہ(اقامہ) کی سرکاری فیس انتہائی زیادہ ہو چکی ہے اور اب آزاد ویزا پر آنا خود کو عذاب میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں ارباب اختیار پاکستانی معیشت کی بنیاد اگر افرادی قوت کی برآمد کوہی سمجھتے تو کم ازکو برآمدی ممالک کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے،پاکستانی افرادی قوت کی تربیت مستقبل کی سامنے رکھتے ہوئے کرتے لیکن صد افسوس کہ آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔تاہم چند ایک کاروباری یا سرکار اہلکاروں کی اس طرف توجہ سے صرف نظرکرنا بھی ممکن نہیں کہ ابھی بھی امید کی کرن باقی ہے کہ کچھ درد دل رکھنے والے پاکستانی اس اہم میدان میں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتے ہیں اور اپنی حتی المقدور کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ ایسی ہی ایک کاوش گذشتہ سفارتخانہ پاکستان کے ویلفیئر ونگ کی جانب سے دیکھنے کو ملی،اس سے قبل بھی سفارتخانہ پاکستان ایسی کاوشیں کرتا رہا ہے لیکن اصل کوششوں کی ضرورت اندرون پاکستان ارباب اختیار کی جانب سے ہے،جس میں کوالٹی سروئیر (تعمیراتی میدان کی ایک اہم پوزیشن)نے سفاتخانہ سے مل کر ایک ویبنار منعقد کیا۔
اس ویبنار میں ماہرین نے کوالٹی سروئیر کے لیے رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر نوجوان صرف اپنے ڈپلومہ کی بنیاد پر خلیجی ممالک میں اپنے لیے کوئی مستقبل تلاش کر رہے ہیں تو ایسا ہرگز ممکن نہیںکہ دورجدید کی مہارت حاصل کئے بغیر یا فقط یک جہتی مہارت کے ساتھ آپ ترقی کے زینے چڑھ سکیں۔ خلیجی ممالک میں بہتر مستقبل کے لیے اب اشد ضروری ہو چکا ہے کہ آپ اپنی بنیادی تعلیم کے ساتھ دیگر پروفیشنل کورسز کریں تا کہ خلیج کی منڈی میں نہ صرف آپ کی اہمیت بن سکے بلکہ آپ معاشی طور پر بھی پھل پھول سکیں۔ سفارت خانہ پاکستان کے ویلفیئر اتاشی جناب بابر سہیل وڑائچ نے کوالٹی سروئیر کے ساتھ اس ویبنار کا اہتمام کیا اور جناب لئیق نے اپنے تجربات کی روشنی میں نئے متلاشیوں کو بہت سے مفید مشوروں کے ساتھ عالمی سطح کی تنظیموں سے رجسٹر ہونے کا طریقہ کار اور اس کے فوائد بھی بتائے ہیں ، اس ویبنار کا ریکارڈ ویڈیو لنک
https://youtu.be/UEIAYO1f-Yo
یہاں شیئر کر رہا ہوں تا کہ پاکستان کے وہ نوجوان جو اس شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور بیرون ملک قسمت آزمانا چاہتے ہیں،ان کے لیے آسانی ہو سکے۔ علاوہ ازیں! یہ بھی توقع کرتا ہوں کہ سفارت خانہ پاکستان اور اس کے عملے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن اس آگاہی مہم کی زیادہ ضرورت پاکستان میں ہے کہ وہاں بیٹھے نوجوان جو بیرون ملک آنا چاہتے ہیں اور اس مارکیٹ میں اپنا کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں،گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ،معاش کے اس نئے افق کو سر کرنے کے لیے ،پوری طرح لیس ہو کر یہاں آئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button