ColumnKashif Bashir Khan

ہم کہاں جائیں گے؟ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

جون کا مہینہ ختم ہونے والا ہے، عوام کو بجلی اور گیس کے بل موصول ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ ان بلوں میں قابل ذکر تبدیلی یہ ہے کہ اول تو ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فروری سے دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے اور دوسرا ان بلوں میں بجلی کے نئے نرخ کا بوجھ عوام پر ڈال کر ان پر ہی بجلی گرا دی گئی ہے۔بجلی کا یونٹ انتہائی مہنگا کر کے عوام کے لیے بجلی استعمال کرنا مشکل ترین کر دیا گیا ہے۔ سوئی گیس کے بلوں میں بھی ظالمانہ اضافہ نے عوام کی ڈوبتی نبض کو مزید مدھم کر دیا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ جون میں ہی بجلی  اور گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافوں نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کرکے ،ان کا جینا حرام کر دیا  ہے۔

شدید لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے پاکستان کے عوام کو اپنی زندگیوں سے بیزار کر دیا ہے۔رجیم بدلنے کے بعد عوام کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں کہ موجودہ اتحادی حکمران کسی بھی کسی قسم کے احساس سے عاری معلوم ہوتے ہیں جو تمام تر غلطیوں اور مشکل فیصلوں کا بوجھ سابقہ حکومت پر ڈالنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہیں۔وزیراعظم محمد شہباز شریف سمیت تمام وزراء اور مشیروں کے پاس سوائے عمران خان کی سابقہ حکومت کے خلاف بیان بازی کے اور کوئی کام ہی نہیں اور ایسا کرتے وہ بھول جاتے ہیں کہ اب نوے کا دور نہیں جو عوام آسانی سے اُن کی بات پر یقین کرلیں گے، حد تو یہ ہے کہ چند یوم قبل پٹرول و ڈیزل کی انتہائی قیمتیں بڑھانے کے بعدوزیر خزانہ نے بیان دیا کہ سابق حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدے،جو موجود ہی نہیں ہیں، کی وجہ سے قیمتیں بڑھانی پڑھیں۔
گو کہ عوام نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں کیا تھا لیکن اتوار کو تحریک انصاف کی جانب سے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران جب عمران خان نے آئی ایم ایف اور موجودہ حکمرانوں کے حالیہ اقدامات کے بارے میں عوام کو تفصیل سے بتایا تو پیر کے روز مفتاح اسماعیل کا بیان آ گیا کہ پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہوا۔ ایک ہی دن کے بعد وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دوبارہ کابینہ کی میٹنگ کے بعد بیان داغ دیا کہ عمران خان جاتے جاتے ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں لیکن یہ بیانیہ نہایت ہی بے جان ہے کیونکہ عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں فروری میں جون تک کے لیے جامد  کی تھیں اور اس وقت تک مبینہ تحریک عدم اعتماد کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستان جس بدترین معاشی گراوٹ کا شکار نظر آ رہا ہے، اس کا شائبہ تک مارچ اور اپریل میں پاکستان میں نظر نہیں آ رہا تھا، اُس وقت ڈالر 178 روپے کا تھا جو آج 212 سے تجاوز کر چکا ہے ۔ پٹرول 150 روپے لٹر تھا جو آج پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین قیمت یعنی 245 روپے فی لٹر مل رہا ہے۔آج پاکستان میں ڈالر نا پید ہو چکا ہے اور امپورٹر کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی کہ وہ بیرونی ممالک سے مال منگوانے کے لیے ڈالر ڈھونڈتا پھر رہا ہے،ایسے میں وزیر خزانہ،وزیر اعظم اور نون لیگ کے وزراء کے ملکی معیشت بارے بچگانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات عوام کے غم و غصہ کو انتہاؤں تک پہنچا رہے ہیں۔ووٹ کو عزت دو، کا بیانیہ زمین دوز ہو چکا ہے،اسی طرح موجودہ حکمرانوں کا اپنی بدترین معاشی پالیسیوںاور پاکستان کی معیشت کو زمین دوز کرنے کا کارنامے کو جانے والی حکومت کے نام نہاد بیان بازی کو عوام ماننے کے لیے اب بالکل بھی تیار نہیں ہیں اور نون  لیگ کی بالخصوص سیاست کو شدید ترین نقصان پہنچ چکا ہے۔ ناتجربہ کار ٹیم کو ملکی معیشت پکڑانے کا نتیجہ ہم دو دن قبل پاکستان میں امریکی سفیر کے پاس جاکر عالمی مالیاتی ادارے سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے معاہدے کے لیے سفارش کی درخواست کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔
اسی بدترین اقتصادی صورتحال میں احسن اقبال کایہ بیان بھی عوام کو سننا پڑتا ہے کہ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں کرپشن ہونے کے باوجود انہوں نے ترقی بھی کی۔ نیب قوانین میں ادھوری قومی اسمبلی سے ترمیم کروانے پر عمران اور ان کی جماعت کے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کےاعلان کی بھی گونج سنائی دے رہی ہے، اور پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک بن چکا ہےجس کی پارلیمنٹ نے ایسی ترمیم کی ہے جس نے پاکستان میں نیب اور ایف آئی اے کو ان ہی حکمرانوں کے زیراثر کر دیا ہے جن کے کرپشن کیسز نیب اور ایف آئی اے میں چل رہئے ہیں۔ایسے قوانین جو مخصوص طبقوںیعنی اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوں ان کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔
پاکستان میں نیب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکمرانوں کی خواہشات کے تابع کرنے کی آئین سازی ہو چکی ہے اور اب سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کا امتحان بھی شروع ہو چکا کہ آئین پاکستان کے مطابق پارلیمنٹ میں کوئی ایسے قانون سازی نہیں ہو سکتی جو اسلام سے متصادم ہو اور اس کے پاس ہونے کے بعد ایک مخصوص طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔بادی النظر میں تو یہ ہی دکھائی دے رہا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی پارلیمنٹ سے تیزی میں اپنے مفاد کے لیے کرائی گئی قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ دے دی گی جو اس کا نفاذ روک دے گا کیونکہ صدر پاکستان نے موجودہ اتحادی حکومت کے اس ترمیمی بل پریہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ’’اس بل کی منظوری ملک میں احتساب کو ختم کرنے کے مترادف ہے اور یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی متصادم ہے‘‘۔
پاکستان میں سیاسی انتشار بھی عروج پر پہنچ چکا ہے اور الیکشن کمیشن پر تحریک انصاف کا عدم اعتماد اور ان کے کچھ فیصلے بھی ملک میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔لاہور کے ایک صوبائی حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار نذیر چوہان کا حامیوں کے ساتھ حملے کے بعد لاہور پولیس کے جانب دارانہ کردار نے بھی سیاسی صورتحال کو نہایت کشیدہ کر دیا ہے اور پنجاب حکومت کے 17 جولائی کو 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیاہے۔
ممنوعہ فنڈنگ پر جو کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے اس پر بھی تحریک انصاف اور بہت سے حلقے الیکشن کمیشن کے اعتراض اٹھا رہے ہیں اور تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں چیف الیکشن کمشنر کو فریق بتارہے ہیں۔ممنوعہ فنڈنگ میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے کیسوں کو لٹکا کر تحریک انصاف کے کیس کو تیزی سے سننے اور فیصلہ محفوظ کرنے میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر جانبداری متاثر ہو رہی ہے اور بالخصوص ان حالات میں جب ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ عمران خان چیف الیکشن کمیشن کو جانبدار بھی قرار دے کر کہہ چکے ہیں کہ ان کو چیف الیکشن کمیشن بنانے کا فیصلہ ان کا نہیں تھا۔چیف الیکشن کمشنر کو اخلاقی طور پر اس عہدے پر کام نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں سب چلتا ہے۔پاکستان میں موجود اتحادی حکومت کی بدترین ناکامی اور پاکستان کے عوام کی تباہ کن معاشی حالت کے بعد اس قسم کی پولیٹیکل انجینئرنگ اور عوام کا مینڈیٹ دھونس اور دھاندلی سے چھیننے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کی سلامتی سے کھلواڑ کے مترادف ہو گا۔
اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان جس بند گلی میں پچھلے 3 ماہ میں پہنچا دیا گیا ہے، اسے نکالنے کو کوئی طریقہ نون  لیگ اور اتحادیوں کے پاس تو دکھائی نہیں دیتا اور عوام بھی ان جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نواز کو پھر سے آزمانے پر تیار نہیں ہوں گے۔لیکن بدترین حالات میں حکمران جماعت کے لیے انتخابات میں جانا سیاسی موت سے بھی بڑھ کر ثابت ہو سکتا ہے اور وہ اقتدار کو چھوڑنا نہیں چاہ رہے،یہ صورتحال دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو زیادہ وقت دینا ملک و قوم سے ظلم کے مترادف ہو گا۔پاکستان کی موجودہ بدترین صورتحال متقاضی ہے کہ آئینی ادارے اور عدالتیں اپنا کردار ادا کریں اور ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے فوری انعقاد کا راستہ نکالیں۔عوام تو اب یہ سوچ رہے کہ وہ کہاں جائیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button