CM RizwanColumn

پاکستان اور ترقی یافتہ جاپان .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

جاپانی سرمایہ کاروں کے وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ جاپان پاکستان کے قریبی دوستوں میں سے ایک ہے، جاپان پاکستان میں اہم منصوبوں میں معاونت کر رہا ہے، اور یہ کہ جاپان نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہماری مدد کی ہے۔90 کی دہائی تک پاکستان میں بہت سی جاپانی کمپنیاں کام کر رہی تھیں، ہم اب بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، پاکستان جاپان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت سے ہزاروں افراد نے روزگار حاصل کیا، گزشتہ سات دہائیوں میں جاپان کی جانب سے پاکستان کو 13 ارب ڈالر کی خطیر رقم دی گئی۔ اس موقع پر یہ بات بھی اہم ہے کہ جاپانی کمپنیوں نے موجودہ حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان میں جاپانی کمپنیوں کو درپیش مسائل کی حل کے لیے کمیٹی بھی بنا دی ہے اور حکم جاری کیا ہے کہ جاپانی کمپنیوں کو درپیش مسائل ایک ہفتے میں حل کرکے رپورٹ دی جائے۔ ایکسپورٹ پراسسنگ زونز ٹیکس فری کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

آج ہم جاپان کی ترقی سے استفادہ کی بات کررہے ہیں حالانکہ ایک وقت تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اتحادی ممالک نے جرمنی اور جاپان سے تاوان کے معاہدے کئے تھے کیونکہ ہندوستان کے فوجیوں نے اس جنگ میں اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ پاکستان بھی اس تاوان کی رقم میں حصہ دار قرار پایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دو پاکستانی وفود نے اس وقت تاوان کے عوض مشینری یا اشیاء کی خریداری کے لیے جرمنی اور جاپان کے دورے کئے اورجو شخصیت اس وقت مذاکرات کے لیے جرمنی تشریف لے گئی تھیں۔ انہوں نے لاہور کے بادامی باغ میں اپنی ذاتی انجینئرنگ کمپنی کے لیے مشینری حاصل کر لی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس دورے کے نتیجے میں اس شخصیت نے سوئٹزر لینڈ کے ایک بنک میں خطیر رقم جمع کرائی، جس کو حاصل کرنے کے لیے ان کی غیرملکی اہلیہ اور بچوں میں سالہا سال بلکہ کئی دہائیوں تک مقدمے بازی چلتی رہی۔

یہ بھی شنید ہے کہ جاپان کا دورہ کرنے والا وفد دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کی زبوں حالی سے اتنا متاثر ہوا کہ حکومت پاکستان سے سفارش کی کہ جاپان سے تاوان کی وصولی کو معاف کردیاجائے۔اس سلسلے میں ایک معاہدہ 1952 میں جاپان اور پاکستان کے سفارتی تعلقات سے قبل طے پایا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف تین سال کے عرصے میں یعنی 1955 میں حکومت جاپان نے پاکستان کو اقتصادی امداد کی فراہمی شرو ع کر دی اور کولمبو منصوبے کے تحت پاکستانی باشندوں کو جاپان میں ٹریننگ کی سہولت فراہم کی تھی۔ یہاں تک کہ 1990 میں جاپان پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی امداد دہندہ بن گیا اور 2000 کی دہائی میں پاکستان کے قرضوں کی معافی کے لیے کئی معاہدے کئے۔

1960کی دہائی میں ایشیا کے چار ممالک سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان اور جنوبی کوریا کو ان کی تیز رفتار ترقی کی بنا پر ایشین ٹائیگر کہا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی ترقی کو بھی ایک ماڈل تصور کیا جاتا تھا اور پاکستان بھی ایشیائی ٹائیگرز کی صف میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہا تھا لیکن سانحہ مشرقی پاکستان پیش آگیااور ملک دو لخت ہوگیا۔اس کے فوراً بعد آنے والی حکومت کی نیشنلائزیشن پالیسی نے ترقی کے عمل کو روک دیا، یعنی اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتارہم ہوئے۔ 1983میں جنرل ضیاء الحق نے جاپان کا دورہ کیا تو گویا اس کی ترقی کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ شاہراہ ترقی پر تیز رفتار پرواز کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ جاپان کے تعاون سے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی گئی۔ جو باتیں اس وقت اس سوال کے جواب میں کی گئیں وہ آج حقیقت بن کر سامنے آگئی ہیں کہ پچھلے پچاس سالوں میں ہم نے کیا گل کھلائے ہیں اور مقابلتاً جاپان نے کیا محنت اور حب الوطنی کی مثالیں قائم کی ہیں۔ تب تو شاید یہ خوش فہمی تھی کہ چالیس پچاس سال بعد ہم جاپان جتنی ترقی کر لیں گے لیکن اب تو یقین ہو گیا ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا ہے اور آج ہم جاپان سے تقابل کی بجائے معاشی طور پر دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا سے تقابل کے خوف سے دوچار ہیں۔

1952میں سوئی کے مقام پر گیس دریافت ہوئی تو دریافت کنندگان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس گیس کا کیا مصرف ہو گا۔ برما آئل کمپنی کے چیف جیالوجسٹ جنہوں نے یہ گیس دریافت کی نے پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے نصرت نصرا کو 1990میں بتایا کہ گیس کی دریافت سے لندن ہیڈ کوارٹر میں اعلیٰ افسران پر تو گویا اوس پڑ گئی تھی، کہ تم تو تیل لینے گئے تھے گیس لے آئے۔ اس گیس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت نیویارک اور امریکہ کی چند ریاستوں کے سوا کہیں گیس استعمال نہیں کی جا رہی تھی۔ لندن تک میں گھروں اور کارخانوں میں کول گیس استعمال کی جاتی تھی، لیکن 1955میں جب سوئی سے کراچی کے لیے گیس کی ترسیل شروع کی گئی تو پاکستان ایشیا کا پہلا ملک تھا جس نے صنعتی ضروریات کے لیے گیس کا استعمال شروع کیا، خود پاکستان میں پوٹھوہار میں اٹک آئل کمپنی نے 1930کی دہائی میں ڈھلیاں کے مقام پر تیل دریافت کیا تو اس کے ساتھ قدرتی گیس بھی جڑی ہوئی تھی اور جب سوئی سے گیس کی ترسیل کراچی کے لیے شروع ہوئی تو اس گیس کی براستہ واہ راولپنڈی کو فراہمی شروع کی گئی۔ سوئی گیس کے استعمال سے کم قیمت بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ سوئی گیس کا ذخیرہ قریب الختم ہے، اسی طرح ڈھوڈک اور پیرکوہ کی گیس ختم ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گیس سے کم قیمت بجلی تیار نہیں کی جا رہی تو یہ کہاں استعمال ہورہی ہے؟

جاپان کی آبادی قریباً 12کروڑ عوام پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی آبادی صحیح طور پر گنی ہی نہیں جاتی۔ جاپان کا علاقہ تین لاکھ ستر ہزار کلو میٹر پر محیط ہے۔ پاکستان کا سات لاکھ چھیانوے ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے برعکس جاپان کی قومی آمدنی 5969 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کی محض تین سو ارب ڈالر ہے۔ آخر اس تفاوت کی وجہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کرپشن دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ جاپان میں بھی کرپشن کم نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کرپشن اور بے عزتی پر خودکشی بھی جاپانی کلچر کا ایک حصہ ہے۔ کیا پاکستان کی سیاست اور دوسرے ستونوں بشمول صحافت میں اس کی مثال دی جا سکتی ہے؟ عرصہ 67 سال سے پاکستان کے عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کا ملک بے انتہا معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ گیس کے ذخائر ختم ہونے کو ہیں لیکن پاکستان کے اکثریتی عوام یہاں تک کہ خود بلوچستان کے اکثریتی عوام اس کی نعمتوں سے محروم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کا صوبہ تیل اور گیس کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ 1952میں سوئی گیس کی دریافت کے بعد آج تک بلوچستان میں کہیں گیس کے نئے ذخائر دریافت نہیں کئے جا سکے۔ 1950 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے عالمی بنک کو بتایا تھا کہ سوئی سے صرف پچاس میل کے فاصلے پر زن Zin کے مقام پر سوئی سے بڑا ذخیرہ موجود ہے، لیکن آج تک اس ذخیرے کو کارآمد نہیں کیاجا سکا۔ کہتے ہیں کہ پہلے تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن کو پرائیویٹائز کیا جائے گا اپنے دوستوں کو نوازنے کے لیے اس کے بعد ان ذخیروں کواستعمال میں لایاجائے گا۔

پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اسے مملکت خداداد کہا گیا کیونکہ دشمنوں کو یقین تھا کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ کہا گیا کہ پاکستان کی تشکیل حضرت قائداعظم اور ان کے ٹائپ رائٹر کی مرہونِ منت ہے، اس وقت پنجاب حقیقت میں پنجاب تھا۔ پانچ دریاؤں کی اس سرزمین میں آج تین دریا خشک ہیں، باقی دو دریاؤں کو بھی خشکی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ قرضے کی قسط نہ ملے دیوالیہ ہو جانے کے خطرات سراٹھا لیتے ہیں۔ دوسرے ممالک سے دوستی یا برابری کی سطح پر کاروبار کے لیے نہیں بلکہ امداد یا یا امدادی بنیادوں پر کاروبار کے لیے ہم دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ارب پتی حکمران اپنی دولت کو محفوظ اور قومی خزانے کو کنگال کرچکے ہیں۔ کوئی پلاننگ اور امید ایسی نظر نہیں آتی کہ کل کلاں ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے باعث چلتے کاروباری مراکز کو پولیس کے ذریعے بند کروایا جا رہا ہے کہ بجلی نہ خرچ ہو۔کیا کہا جائے ایسے انداز حکومت پر۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button