ColumnNasir Sherazi

پرہیز علاج سے بہتر .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
ستر کے انتخابات میں ملک دو سیاسی نظریات میں بٹ گیا، مغربی پاکستان میں رہنے والوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں بسنے والے کیا سوچ رہے ہیں۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کا ووٹ تھا یا اینٹی بھٹو ووٹ، مشرقی پاکستان الگ ہوجانے کے بعد حکومت بھٹو کو ملی، لہٰذا بھٹو کے چاہنے والے سراٹھاکر چلنے لگے۔ برسوں بعد بھٹو نے وقت سے قبل انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا تو ماضی کی ناکامی دیکھ کر اینٹی بھٹو سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئیں۔ انتخابات کے نتائج کو رد کرکے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی۔ جنرل ضیا الحق کے زمانہ اقتدار میں مسلم لیگ کی تنظیم نو ہوئی تو اس کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی، مسلم لیگ کے کئی بخرے ہوئے لیکن اقتدار کی حامل مسلم لیگ ہی اصل قرار پائی، اس کی اقتدار کی باری ختم ہوئی تو پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا، اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دو بڑی سیاسی جماعتیں قرار پائیں، علاقائی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی پسند کے مطابق انہی دونوں میں سے ایک کے ساتھ الحاق کیا کچھ نے انفرادی حیثیت برقرار رکھی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے آپ کو فخریہ ’’پپلیا‘‘ کہتے تھے، مسلم لیگ کا سب سے مضبوط دھڑا نواز لیگ کے نام سے سامنے آیا تو اس کے کارکن ’’نونی‘‘کہلائے۔ مسلم لیگ ہی کے بطن سے قائد مسلم لیگ کا جنم ہوا اس کے حمایتی ق لیگی یا قافیے کہلائے۔ تحریک انصاف کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنی تو اس سے ہمدردی رکھنے والے ابتدا میں انصافیے کے نام سے پہچانے گئے بعد ازاں یوتھ اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئی تو یہ سب یوتھ کے نام سے یاد کیے جانے لگے۔ تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو قریباً پونے چار برس بعد رخصت ہوگیا۔ جاری زمانے کو سیاسی فرقہ واریت کے عروج کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا کریڈٹ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جاتا ہے، سیاسی فرقہ واریت نے خاندانی اور معاشرتی نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، دوستیاں ختم ہورہی ہیں، محبتیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ ضرورت رشتہ کے اشتہار میں کہہ دیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی یوتھ اور میرج بیوروز سے معذرت یا نونیوں اور میرج بیوروز سے کہاجاتا ہے کہ براہ مہربانی رابطے کی زحمت نہ کریں۔
لڑکے والے رشتہ دیکھنے کے لیے گئے ، لڑکی والوں نے بصد احترام بٹھایا، خوب خاطر مدارت کی، لڑکی پہلی نظر میں پسند آگئی، خیر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی، دراز قد، کتابی چہرہ، بیہودہ فیشن کے زمانے میں دراز گیسو، جنہیں نہایت سلیقے سے سمیٹا گیا تھا، رنگ گلابی، چشم آھو، جسم پر لباس مکمل، بات کرتی تو منہ سے پھول جھڑتے، غرضیکہ کوئی کمی نہ تھی۔ بے تکلفی بڑھی تو گفتگو طویل ہوگئی، لڑکے والوں کا جی نہ چاہ رہا تھا کہ رخصت ہوں، یہی حال لڑکی والوں کا تھا، دونوں گھرانے ایک دوسرے پر صدقے واری ہوئے جاتے تھے، کسی ناہنجار نے اچانک پوچھ لیا الیکشن میں ووٹ کسے دیا تھا، لڑکی کی والدہ نے یوں جواب دیا جیسے وہ اس کی بہت بڑی صفت بیان کررہی ہوں، مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ہم تو سب سو رہے تھے لیکن ہماری بیٹی عمران خان کو ووٹ ڈال کر آگئی، یہ سننا تھا کہ لڑکے کی ماں نے چائے کا کپ ہاتھ سے رکھ دیا اور یوں اچانک اٹھ کھڑی ہوئیں جیسے 440وولٹ کا کرنٹ لگا ہو، منہ بناتے ہوئے بولیں، جس لڑکی کو تحریک انصاف کا تڑکا لگا ہو ہمارا اس کے ساتھ گذارا نہیں ہوسکتا۔ انہوںنے اپنا جملہ ختم کیا اور گھر کے دروازے سے باہر ہوگئیں۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے، اسی طرح ایک خاندان کے افراد لڑکا دیکھنے گئے، لڑکا بس پورا سا تھا، یہ ظاہر اس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی، وہ حور کے سامنے لنگور کے محاورے کے عین مطابق تھا، مگر کیریئر کے ابتدائی برسوں میں پوش علاقے میں بنگلہ بنانے، گاڑی خریدنے اور ماں کو سونے کے زیورات سے لادنے میں کامیاب ہوچکا تھا،
دوران گفتگو کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی کو بازو پر پھرانا اس کی اضافی خوبی قرار پائی، بیش قیمت موبائل فون پر تواتر سے آتی کالز میں وہ پلاٹوں کے ریٹ پوچھتا تو خواہ مخواہ لڑکی والوں کی باچھیں کھل جاتی تھیں، لڑکے نے اپنی متوقع ساس کو مزید متاثر کرنے کے لیے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا سونے سے بنا ہوا انتخابی نشان شیر دکھایا تو انہوںنے اسی لنگور کو بیٹی دینے کا حتمی ارادہ کرلیا لیکن یہ سوچ کر اس کا اظہار نہ کیا کہ فوراً ہاں کردی تو لوگ سمجھیں گے کہ لڑکی راہ میں پڑی ہے۔ لیکن انہوں نے رخصت ہونے سے قبل لڑکے کی ماہ کو اپنا دوپٹہ بدل بہن بنانا ضروری سمجھا تاکہ رشتہ ہاتھ سے نکل نہ جائے، لڑکا دیکھنے کے بعد سب کشاں کشاں گھر پہنچے اور دیگر اہل خانہ کو لڑکے کی جملہ خوبیاں بیان کیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ لڑکا سرکاری ملازم ہے، بہت بڑا افسر تو نہیں لیکن ایکسائز کی ملازمت اُسے خوب راس آئی ہے، وہ خیر سے پانچ کروڑ روپے کی جائیداد بناچکا ہے، ابھی نوکری کو پانچ برس نہیں ہوئے، لڑکی کو لڑکے کے گھر کی ویڈیو دکھائی گئی اور بتایاگیا کہ تم ساری عمر عیش کروگی،
ویڈیو کے آخری منظر میں لڑکا اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کے پوسٹر کے سامنے ایک ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنائے دوسرے ہاتھ میں اصل شیر کے گلے میں بڑی زنجیر تھامے کھڑا تھا، لڑکی نے بادی النظر میں سمجھا شاید بن مانس اور شیر کی دوستی کے حوالے سے پوسٹر بنایاگیا ہے، اُسے بتایاگیا کہ ارے بے وقوف یہی تو ہے تیرے خوابوں کا شہزادہ، جو تجھے سونے میں تول کر دو کروڑ کی گاڑی میں بٹھاکر لے جائے گا۔ لڑکی برا سا منہ بناکر بولی ، لڑکا تو بہت اچھا ہے لیکن شادی کی شرطوں میں یہ شرط بھی رکھ دیں کہ شادی کے بعد لڑکے کا شیر اور شیر والوں سے کوئی تعلق نہ ہوگا، لڑکے والوں تک تمام شرائط پہنچادی گئیں، جو انہوں نے ایک کے سوا سب مان لیں، وہ شیر سے دستبرداری پر تیار نہ ہوئے، ان کے خیال میں ان کی زندگی میں سب رونقیں شیر کے دم قدم سے تھیں، لڑکی نہ مانی، اس نے جواب دے دیا کہ اُس نونی خونی سے شادی کرنے سے بہتر ہے وہ تمام عمر گھر بیٹھی رہے اور اس روکھی سوکھی پر گذارا کر لے۔ اس کے کان میں آواز نہ پڑے ،
شیر ایک واری فیر، سیاسی کشیدگی ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں کی طرح بڑھ رہی ہے، کسی میں کمی کے دور دور تک آثار نہیں، شیخ رشید ہر دوسرے روز خبر دیتے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگی، یوں لگتا ہے جیسے یہ ان کی دلی خواہش ہے، اقتدار سے جو بھی جب بھی بے دخل ہوتا ہے، ملک میں خانہ جنگی کی آرزو پال لیتا ہے، پس پردہ انتقامی خواہش کی تکمیل ہوتی ہے کہ اقتدار ان کا نہیں رہا تو اپوزیشن کے ساتھ بھی نہ رہے۔ خانہ جنگی شروع ہو تاکہ کوئی اور آجائے اور اقتدار سنبھال لے تو کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے، ان کی حلیف سیاسی جماعت قومی اسمبلی کی نشستوں سے دیئے گئے استعفے واپس لیکر اسمبلی میں واپس آنے کا سوچ رہی ہے، اس کی آخری امید بجٹ کے بعد ہونے والی کمرتوڑ مہنگائی کے نتیجے میں متحدہ اپوزیشن کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ نونی اور جنونی ایک دوسرے کے دشمن بنے ہیں، پپلئے اور قافیے صورتحال کا مزہ لے رہے ہیں، سب سے زیادہ فائدے میں وہی رہیں گے، وہ خوب جانتے ہیں کہ سیاسی فرقہ واریت میں کچھ نہیں رکھا، پرہیز علاج سے بہتر ہے، ڈاکٹر نے علاج کی تیاری کرلی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button