ColumnRoshan Lal

 عامر لیاقت اور میڈیا .. روشن لعل

روشن لعل
ملک کے مہنگے ترین میڈیا پرسن رہ چکے عامر لیاقت کی 9 مئی کو ہونے والی اچانک اور کسی حد تک پراسرار موت کی اطلاع ملک کے قریباً تمام نشریاتی اداروں سے کئی گھنٹوںتک اہم ترین خبر کے طور پر نشر کی جاتی رہی۔ جس شخص کا شمار تین مرتبہ،ملک کی 100 اہم ترین شخصیات میں ہو چکا ہو اس کی موت کی خبرکے اہم ہونے پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے مگر یہاں حیرانی کی بات یہ تھی کہ عامر لیاقت حسین کی موت کی خبر کے ساتھ ناظرین کو یہ اطلاع بھی دی گئی کہ وہ معروف ترین ہونے کے ساتھ متنازعہ ترین بھی تصور کیے جاتے تھے۔ اس طرح کی خبروں میں ان کی شادیوں اور متنازعہ ڈگریوں کے ذکر کے ساتھ مرحوم کا جو کچا چٹھا کھولا گیا اس میں کسی کے لیے بھی کوئی بات انکشاف نہیں تھی۔ مین سٹریم میڈیا ہی نہیں عامر لیاقت کی موت پر سوشل میڈیا کے صارف بھی کافی مصروف نظر آئے۔ کسی نے کہا کہ وہ جو تھے اور جیسے بھی تھے ، یہ معاملہ اب ان کے اور رب کے درمیان ہے ، لہٰذا جو معاملہ رب کے سپرد ہو چکا اس میں دخل اندازی کی بجائے ان کی مغفرت کی دعا مانگنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہنا چاہیے۔
اس موقف کے برعکس خیال رکھنے والوں نے مرحوم عامر لیاقت کے لیے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے ،ناپسندیدہ تصور کی جانے والی مذہبی ، سماجی و سیاسی شخصیات کی ایک لمبی فہرست پیش کرکے یہ سوال اٹھایا کہ اگر مرنے کے بعد بندوں کا معاملہ خدا کے سپرد ہو جاتا ہے تو پھر ان مرحومین میں سے کسی پر سالانہ اور کسی پر قریباً روزانہ تبرا کیوں کیا جاتاہے۔ عامر لیاقت کی موت پر سوشل میڈیا پر ہونے والی جس بحث کا یہاں ذکر کیا گیا ہے یہ کوئی نئی بحث نہیںبلکہ متنازعہ اور معروف ہونے والے قریباً ہر شخص کے دنیا سے رخصت ہونے کے موقع پر دیکھنے اور سننے میں آتی ہے۔عامر لیاقت کی موت کے دن سوشل میڈیا پر مصروف رہنے والوں میں سے قریباً ہر ایک نے انہیںایک خاص عینک سے دیکھا اور ان عینکوں میں سے جس کو مرحوم کی شخصیت جیسی نظر آئی اس کے مطابق اس نے اپنا بیان جاری کردیا۔
عامر لیاقت کی موت پر انہیں خاص عینکوں میں سے تو ہر کسی نے دیکھا مگر اس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ خود ان کو آئینہ بنا کر اس میں دیکھنے سے، ان کی ذات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ نظر آسکتاہے۔عامر لیاقت نے جو زندگی گزاری وہ ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے عیاں ہے۔ ان کی زندگی سے اگر میڈیا کا کردار نکال دیا جائے تو پھر دیکھنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اگر مین سٹریم میڈیا کا حصہ بننے کے بعد عامر لیاقت کا شمار ملک کی معروف ترین شخصیات میں ہوا تو میڈیا نے ہی انہیں متازعہ ترین بھی بنایا۔ عامر لیاقت کے میڈیا کے توسط سے عوامی رابطے کا آغاز کراچی میں چلنے والے ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے ذریعے ہوا۔ خاص مذہبی پس منظر کے حامل خاندان سے تعلق رکھنے والے عامر لیاقت نے اس ایف ایم ریڈیو سٹیشن سے اپنے مخصوص انداز میں رمضان کا پروگرام پیش کر کے اپنی خاص پہچان بنائی۔ عامر لیاقت کا مذہبی معاملات پر فنکارانہ انداز میں گفتگو کرنے کا ہنر، پاکستان میں شروع ہونے والے پہلے نجی ٹیلی ویژن چینل کی ابتدائی ٹیم میں ان کی شمولیت کا محرک بنا۔ مذہبی معاملات پر اپنے خاص انداز گفتگو کی وجہ سے عامر لیاقت طویل عرصہ تک اس ٹی وی چینل پر مختلف مذہبی پروگراموں کی میزبانی کرتے رہے۔
انہوں نے اس ٹی وی چینل کے مذہبی پروگراموں میں دلہوں جیسے لباس میں سج دھج کر بیٹھنے کی ایسی روایت کا آغاز کیا جس کی بعدازاں قریباً ہر مذہبی مقرر اور نعت خوان ان کی نقل کرتا نظر آیا۔مذہبی معاملات پر بات کرتے ہوئے لباس کی طرح مختلف قسم کی نئی اختراعات کا آغاز کرتے ہوئے وہ ایک طویل عرصہ تک ملک کے ابتدائی نجی ٹی وی چینل کا حصہ بنے رہے۔ واضح رہے کہ یہ تحریر عامر لیاقت کے حالات زندگی بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ اندازہ لگانے پر اکسانے کے لیے لکھی جارہی کہ جو بندہ ایک طویل عرصہ تک مذہبی پروگراموں کی میزبانی کرتا رہا حقیقت میں اس کا مذہب سے لگائو کس حدتک تھا۔
عامر لیاقت نے جس ٹی وی چینل کوقریباً دس برس تک مذہبی پروگرام نشر کرنے کے بعد خیر آباد کہا پھر اسی چینل نے اپنی لائبریری میں برسوں تک دبائے ہوئے ایسے ٹوٹے سوشل میڈیا پر وائرل کیے جنہیں دیکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جو بندہ انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ مذہبی معاملات پر گفتگو کرتا نظر آتا رہا کیا اس کا حقیقت میں مذہب کے ساتھ کوئی لگائو تھا یااس نے مذہب کو محض اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔
لوگوں نے ابھی اس طرح سے سوچنے کا آغاز کیا ہی تھا کہ عامر لیاقت سے متعلق متنازعہ ٹوٹے برآمد ہونا بند ہوگئے ۔ چند مواقع پر عامر لیاقت نے یہ اظہار بھی کیاتھا کہ مذہبی پروگراموں کے سیٹ پر ریکارڈنگ سے پہلے اور بعد میں ان کے منہ سے برآمد ہونے والے لغو کلمات کے ٹوٹے کس کی سازش کے تحت وائرل کئے گئے ۔ چند ایک ایسے بیانات دینے کے بعد وہ خاموش ہوگئے اور پھر عوام نے انہیں اسی چینل پر دوبارہ مذہبی پروگراموں میں بولتے ہوئے دیکھا جس چینل کو چھوڑ کر وہ اس کے شدید ترین مخالف اور متحارب سمجھے جانے والے چینل کا حصہ بن گئے تھے۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد عامر لیاقت کے مذہبی حوالوں سے متنازعہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا مگر سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود تمام پرانے اور ہر نئے شروع ہونے والے چینل نے بڑھ چڑھ کر انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ اس عرصہ میں ان کا زیادہ وقت مختلف ٹی وی چینلوں پر مذہبی پروگرام کرتے ہوئے گزرا۔
مرحوم عامر لیاقت کے متعلق جو متنازعہ باتیں بیان کی گئی ہیںوہ نہ تو کسی قسم کا کوئی انکشاف ہیں اور نہ ہی ان باتوں سے ان کے لیے پہلے سے موجود ہمدردی یا مخالفت کے حجم میں کوئی فرق پڑسکتا ہے۔ جب ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر یہ باتیں کیوں بیان کی گئی ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ احساس اجاگر کرنا ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے مرحوم عامر لیاقت کو متنازعہ شخصیت سمجھا جارہاہے ان کی وجہ سے ان تمام نشریاتی اداروں ، مذہبی شخصیات اور سیاسی جماعتوں کو بھی کیو ں متنازع نہیں سمجھا جاسکتاجو ان کے متعلق تمام تر حقائق جاننے کے باوجود انہیں دھڑلے سے استعمال کرتے رہے۔اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عامر لیاقت کی ذات کے حوالے سے آج جتنے بھی تنازعات نظر آرہے ہیں ان میں سے ہر تنازع کے دوران مذکورہ عناصر خاموشی سے اسے اپنے ریکارڈ کا حصہ بنا کر مخصوص مفادات حاصل کرتے رہے۔ جب میڈیا کے خاموش کرداروں کی متنازع حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلاسکتا تو پھر کیوں ضروری ہے کہ صرف مرحوم عامر لیاقت کو ہی متنازع سمجھا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button