Columnمحمد مبشر انوار

حسن کرشمہ ساز .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سر جیمزلائل،انگریز سرکار کے پنجاب میں متعین گورنرحکومت برطانیہ نے 1896میں گورنر لائل کی رچنا دوآب کے مکینوں کو برطانیہ کے زیر تحت لانے کی خدمات کے اعتراف میں دریائے راوی اور چناب کے درمیان رچنا دوآب کے علاقے میں، ان کے نام سے نیا شہر تعمیر کروایا،جس کا نام لائل پوررکھاگیا۔یہ علاقہ تب تین اضلاع گوجرانوالہ،جھنگ اور ساہیوال کا حصہ تھا۔ شہر کا ڈیزائن کپتان پوپھن ینگ نے تشکیل دیا،اس شہر کا نقشہ آج بھی اہم ذہنیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ،جو نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں میں پائی جاتی ہے تاہم کل کا لائل پور اور آج کا فیصل آباد ،پاکستان کا ایک معروف ،بڑااور تاریخی اہمیت کا شہر ہے ۔ اسے اپنے صنعتی کردار کے باعث دنیا پاکستانی مانچسٹر کے نام سے بھی یاد رکھتی ہے لیکن افسوس کہ وقت گذرنے کے ساتھ اور حکومتی پالیسیوں کے باعث یہاں کی صنعت کبھی اکھڑے سانس لیتی نظر آتی ہے تو کبھی ایسے جی اٹھتی ہے کہ جیسے کبھی یہاں قحط کا واسطہ ہی نہ رہا ہو۔ اس کے جی اٹھنے کی حالت عمران خان کے دور حکومت میں نظر آئی اور یوں محسوس ہوتاتھاکہ اب اس شہر میں ہونے والی اقتصادی و صنعتی سرگرمیاں ماند نہیں پڑیں گی گو کہ ان سرگرمیوںکے پس منظر میں عالمی حالات کا بہت بڑا کردار تھالیکن اس کے ساتھ عمران خان حکومت نے جو بھی ممکنہ وسائل تھے، اس شہر کے مہیا کئے۔بات درحقیقت اس شہر کے نقشے و ڈیزائن کی پاکستان میں بسنے والے اشرافیہ کے روئیے سے مطابقت کے حوالے سے ہے کہ جس طرح اس شہر کے آٹھ بازاروں میں سے کسی بھی بازار کا رخ کریں،آخر کار سامنے گھنٹہ گھرہی نظر آتا ہے۔واللہ اعلم یہ محض اتفاق ہے یا واقعتاً کپتان ینگ کا عمیق مشاہدہ تھا کہ وہ اس خطے میں بسنے والے افراد کی نفسیات کو سمجھ کر ایک ایسا شہر آباد کر گیا جو آنے والے وقتوں میں یہ یاد کرواتا رہے کہ اس خطے کے لوگوں کی نفسیات نہیں بدل سکتی۔

اس خطے کے رہنے والوں میں اختیار حاصل ہوتے ہی نفسیاتی طور پر ذاتی انا،دوسروں کو بلاوجہ رگیدنا،ان کی تذلیل کرنا،انہیں اپنے اختیار کا موقع بے موقع اپنے اختیار کا احساس دلانے کی عادت بدرجہ اتم موجود ہے ،جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے اختیارات سے تجاوز کا اظہار عام ہے تا وقتیکہ اگلا گھٹنے نہ ٹیک دے۔گھنٹہ گھر کی یاد اس لیے بھی آئی کہ حال ہی میں عمران خان حکومت کے وزیر خزانہ کی ایک ملاقات کا بہت چرچا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مقتدر حلقوں نے انہیں بالخصوص یاد کیا اور انہیں یہ کہا گیا کہ موجودہ حکومت اور پاکستانی معاشی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،آئی ایم ایف میں متحد ہو کر ان مخدوش حالات سے نکلا جائے۔میڈیا کی ان اطلاعات کے مطابق،شوکت ترین نے واضح کیا کہ اگر ان کی حکومت رہتی تو پاکستان کو ان معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اس ضمن میں وہ مارچ میں ہی ایک بریفنگ دے چکے تھے کہ پاکستانی معاشی صورتحال و معیشت صحیح ڈگر پر چڑھ چکی ہے، لہٰذا اس کو کسی بھی صورت پٹڑی سے نہ اتارا جائے وگرنہ شدید مشکلات کا اندیشہ ہے۔ شوکت ترین کا یہ دعویٰ آج حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور ہر طرف ایک افراتفر ی نظر آتی ہے،مہنگائی مکاؤ مارچ کرنے والے،تجربہ کار اور اہل ترین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی حالت دیدنی ہے کہ کس طرح بیرونی آقاؤں کے حکم کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ پچاس دنوں کے اندر اندر پٹرول کی قیمت ستر روپے کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے پٹرول کو دو سوروپے سے زیادہ کر دیا ہے،بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،گیس کی صورتحال بھی مختلف نہیں جبکہ اس سخت گرمی میںبجلی کی شدید ترین لوڈعوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔

حیرت انگیز طور پر پالیسیوں کا تسلسل توڑنے والے آج،پالیسیوں کے تسلسل کی یوں بات کرتے نظر آتے ہیں کہ جیسے وہ ہمیشہ ملکی مفادات کے لیے کھڑے رہے ہوں،ایسے معصومانہ منہ بنا کر دھوکہ دیتے ہیں کہ جیسے عوام ان کے کارنامے بھول چکی ہے،بہرحال عوام ان کارناموں کو بھولی ہو یا نہ بھولی ہو،بہت سے لوگوں کو ان کے ذاتی عناد میں ملکی مفاد و رفاہ عامہ کے منصوبوں کو ملیامیٹ کرنا بخوبی یاد ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے رفاہ عامہ کے منصوبوں کو کس نے سبوتاژ کیا تھا؟1122کے فنڈزچودھری پرویزالٰہی سے ذاتی پرخاش کی بناء پر کس نے روکے تھے؟لاہور کے علاوہ دیگر پنجاب میں شروع کئے گئے طبی منصوبے کس نے ختم کئے ؟انڈر گراؤنڈ میٹرو کا سستا ترین منصوبہ ،جو خالصتاً ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا،کو بیک جنبش قلم کس شخصیت نے فائلوں میں دباکر موجودہ مہنگا منصوبہ تیار کیا تھا اور کیوں کیا گیا تھا؟گذشتہ پینتیس؍چالیس برس سے کیا یہ ہمارے سامنے نہیں کہ کس نے کیا کیا اور کس کے متعلق پیر پگاڑا نے کہا تھا کہ یہ جب مشکل میں ہوں تو پاؤں پکڑتے ہیں اور جب طاقت میں ہوں تو گلا پکڑتے ہیں؟مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے کس کے متعلق کہا تھا کہ زندگی میں پہلی بار ایک تاجر سے سمجھوتہ کیا لیکن اس نے دغا دیا؟

ریاست چلانے کے لیے ریونیو کی ضرورت ہوتی ہے اور بات پھر خزانے کی طرف ہی جاتی ہے کہ عمران خان کی حکومت میں اعدادوشمار کے مطابق، سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوا اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے عمران خان حکومت نے عوامی رفاہ کے بہت سے منصوبے شروع کررکھے تھے۔ ایک طرف عوام کو ہیلتھ کارڈ کی سہولت دی جار ہی تھی تو دوسری طرف احساس پروگرام کے تحت غریبوں کو ہر ماہ ایک اچھی خاصی رقم بطور امداد دی جا رہی تھی جو اس سے قبل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین اس سے مستفید ہوتے رہے اور حکومت کو چونا لگتا رہا،عمران خان حکومت نے ایسے سرکاری ملازمین کو اس پروگرام سے مکمل تحقیق کے بعد نکالا اور مستحقین کو یہ امداد پہنچائی۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ کو آئی ایم ایف کی ایسی لت لگی ہے کہ اس سے جان چھڑانا فقط اس لیے ممکن نہیں رہا کہ جو قرض اس ادارے سے لے رکھے ہیں،ان کی واپسی بھی اسی صورت ممکن ہے کہ سود پر مزید قرض اس ادارے سے لے کر،ان کا قرض واپس کیا جائے لیکن اس مشق میں پاکستان مزید قرضوں کی دلدل میں پھنستا جار ہا ہے۔دوسری طرف حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے کبھی بھی پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے اداروں کے چنگل سے نکالنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ان اداروں سے قرض لے کر، شاہی خاندانوں نے صرف اپنی معاشی حیثیت کو ہی مستحکم کیا۔

درحقیقت اشرافیہ کی اپنی نظر میں پاکستان کبھی بھی ان کا ملک نہیں رہا سوائے عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر،ملک کو فرانس،برطانیہ اور امریکہ بنانے کے دعوے کرتے رہے لیکن عملاً ریاست کو تنزلی کی طرف دھکیلتے رہے،اس کا ثبوت اقتدار سے علیحدگی کے بعد پیرون ملک رہائش ہے کہ جب بھی چراگاہ سے اختیار ختم ہوتا یہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔کون جانے کہ تحریک انصاف کو جو مشکل کا سامنا اس و قت ہے کب اس کی قیادت بیرون ملک جا بسے کہ فارن فنڈنگ کا کیس گذشتہ کئی سالوں سے زیر التواء ہے اور اس کا فیصلہ کسی بھی وقت متوقع ہے،گو کہ عمران خان کہہ تو رہے ہیں کہ وہ ملک میں ہی رہیں گے لیکن کون جانے کہ کب کہاں یہ فیصلہ ہو جائے کہ سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ملک سے باہر چلے جائیں۔ یہاں یہ کہنا مناسب نہیں سمجھتا کہ عمران خان کے باہر جانے کا فیصلہ ’’کون‘‘ کرے گا کہ بد قسمتی سے پاکستانی سیاست کا گذشتہ کئی دہائیوں سے ’’گھنٹہ گھر‘‘ایک ہی ہے کہ کسی بھی سیاستدان کی جدوجہد دیکھ لیں یا اس کے اقتدار میں آنے کے نشان؍کھرا دیکھ لیں،سارے شواہد گھنٹہ گھر کی طرف ہی جاتے دکھائی دیتے ہیں۔شوکت ترین کے حالیہ انٹرویو میں انکشافات درحقیقت انکشافات نہیں بلکہ عرض مکرر ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اس امر کا احساس ہو چکا ہے کہ ان کا سیاسی داؤ غلط ہو چکا ہے تاہم ابھی بھی کوشش یہی ہے کہ کسی بھی طرح حکومت کی امداد جاری رکھی جائے،خواہ مخالفین سے پاکستان کے نام پر مدد ہی کیوں نہ لینی پڑے۔ یہاں شوکت ترین کو داد دینی پڑتی ہے کہ بقول شوکت ترین انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ اس حکومت کی کسی بھی طرح سے مدد نہیں کریں گے البتہ پاکستان کی خاطر اگر عبوری حکومت کا اعلان ہوتا ہے تو عبوری حکومت کی مدد کرنے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہے۔ شوکت ترین کا مقتدر حلقوں سے موجودہ صورتحال میں یہ کہنا اچنبھے کی بات ہے اور جواباً آئی ایس پی آر کی جانب سے قانونی کارروائی کرنے کا اظہار کرنا،پس پردہ کچھ نہ کچھ ہونے پر دلالت کرتا ہے ،پس پردہ اس مشق کو ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button