CM RizwanColumn

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی یاد میں ! .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی ناگہانی وفات کے بعد وارثان نے پوسٹ مارٹم نہ کروانے کا فیصلہ کیا جبکہ عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ ان کی میت کا پوسٹ مارٹم کیا جانا ضروری ہے تاکہ ان کی ناگہانی موت کی وجوہات سامنے آسکیں۔ یقیناً ان کا پوسٹ مارٹم ہونا ضروری امر تھا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق اُنہیں جمعرات کے روز دوپہر کے وقت خرابی طبع کے باعث ہسپتال لے جایا گیا، تاہم ڈاکٹروں کے مطابق وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل راستے میں ہی وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ سیدہ بشریٰ اقبال نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مرحوم کے دونوں وارثین احمد عامر اور دعائے عامر نے ان کا پوسٹ مارٹم کروانے سے منع کر دیا ہے اور ان کی خواہش کے مطابق مرحوم کو عزت و احترام کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہ تک لے جایا جائے گا۔ آغا خان ہسپتال سے چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا نے ڈاکٹر عامر لیاقت کی لاش وصول کی جس کے بعد میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا گیاتاہم پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ کے مطابق ان کی فیملی بغیر پوسٹ مارٹم کے ان کی میت لے گئی۔

 

ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق عامر لیاقت کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والے چھیپا کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جس وقت میں اندر پہنچا تو عامر لیاقت صوفے پر تھے اور ان کی حالت ناساز تھی لیکن اُن کی سانسیں چل رہی تھیں اوریہ قریباً ایک بجے کا وقت تھا، انہیں جناح ہسپتال لے جایا جا رہا تھا جس کے بعد راستے میں ہی میں کال آئی کہ انہیں آغا خان لے جایا جائے۔یاد رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے عامر لیاقت اپنی تیسری شادی کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کی زد میں تھے۔ جس کے بعد انہوں نے ملک چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

ان کی وفات کے باعث قومی اسمبلی کا جمعہ کو ہونے والا اجلاس ہفتے کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اُن کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اپنے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کی رحلت کے بارے میں جان کر نہایت افسردہ ہوں۔عامر لیاقت اپنی زندگی میں بھی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز کا حصہ بنے رہے اور وفات پر بھی ان کا نام پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل تھا۔ مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر لوگ ان کی وفات پر غمزدہ دکھائی دیے اور اکثریت کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کے تنازعات اور مسائل اُن کے ساتھ ہی چلے گئے ہیں۔ اس لیے اب ان کے بارے میں رائے زنی کرنا مناسب نہیں۔ بات بھی ٹھیک ہے کہ اب عامر لیاقت کو مالک حقیقی نے طلب کیا ہے، ہم سب کو ان کے لیے بس فاتحہ پڑھنا چاہیے اور باقی
معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے ۔

جو چلا گیا اس کا حساب کتاب بھی اب مالک کائنات کے پاس ہے۔ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کے ہم سب کو ان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔ ہماری زندگی کا عرصہ ہمارے بس سے باہر ہے، زندگی کے عروج وزوال اور سرد گرم ایک حوالہ سے ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر عامر لیاقت کی زندگی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ وہ پاکستان کے ٹی وی چینلز کے فیورٹ تھے اور ملک میں ایک بڑا نام تھے ہر ٹی وی چینل ان کو اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کرتا تھا پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ان کو باوجود درخواست کے کوئی چینل بھی اپنانے کو تیار نہیں تھا۔ ان کی زندگی عروج و زوال کا ایک نادر مرقع تھی۔ ان کی زندگی سے جڑے تنازعات کو ایک طرف رکھیں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عامر لیاقت پاکستان کی ٹیلی وژن تاریخ کا ایک بڑا نام تھے، ایک عظیم میزبان اور پیش کار تھے۔ ہوسٹ بنے تو کمال کیا۔ نعت پڑھی تو سامعین جھوم اٹھے۔ رمضان المبارک کی فضیلت بیان کی تو ایک عالم نظر آئے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آخری ایام میں ڈاکٹر عامر لیاقت اپنی زندگی کے بحران سے گزر رہے تھے۔ قوم نے ان کی زندگی کا عروج دیکھا ان کے سیاسی اور پیشہ ورانہ کیریئر کو گرتے بھی دیکھا۔ بحران کے وقت ہر بندہ مڑ کر اپنوں کی طرف دیکھتا لیکن اگر اپنے خاندان میں بھی پناہ نہ ملے تو بندہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے لیکن دیکھا گیا کہ اس ڈپریشن کے دور میں بھی ان کے بعض ناقدین نے انہیں نہ بخشا۔ سبق یہ ملتا ہے کہ کسی اس طرح کے معاملے میں اگر آپ کے پاس کچھ اچھا کہنے کو نہیں تو کچھ برا بھی نہ کہیں۔

مذہبی ٹی وی پروگرام ’’عالم آن لائن‘‘ سے شہرت پانے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت کر قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی۔اس سے قبل 2002 کے عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور انہیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذہبی امور کا وزیر مملکت بھی بنایا گیا۔ وہ واحد وزیر تھے جنہیں اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے اپنی خواہش پر وزیر بنایا۔ جولائی 2007 میں عامر لیاقت حسین نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا یہ استعفیٰ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے ملعون انڈین مصنف سلمان رشدی کو ٹی وی پروگرام میں’’واجب القتل‘‘قراردیاتھاپھر 2008 میں ایم کیوایم نے عامر لیاقت کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیاتھا۔عامر لیاقت حسین نے طویل عرصے تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور2016 میں الطاف حسین کی متنازع تقریر سے چند روز قبل وہ دوبارہ سرگرم ہوئے۔ جب 22 اگست 2016 کو رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لیا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا تھا اور رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں وہ بھی موجود تھے لیکن بعد میں دوبارہ غیر متحرک ہو گئے۔ عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں 2017 میں سامنے آئی تھیں۔ ان کی اپنی ٹویٹس کے باوجود بھی اعلان سامنے نہیں آیا تھا مگر بالآخر وہ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ پارٹی میں شمولیت کے وقت بھی عامر لیاقت کو پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 2018 میں عامر لیاقت حسین نے عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس میں پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا توکہاکہ میرا آخری مقام پی ٹی آئی تھا۔ کیسا اتفاق ہے کہ آج ان کی آخری سیاسی پارٹی پی ٹی آئی ہی ثابت ہوئی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں وہ این اے 245 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

جہاد اور خودکش حملوں کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات پر کچھ مذہبی حلقے ان سے ناراض بھی رہے۔ 2005 میں جامعہ بنوریہ کے ایک استاد کی ہلاکت پر جب وہ تعزیت کے لیے پہنچے تواُنہیں طلبہ نے یرغمال بنا لیا تھا۔ عامر لیاقت متعدد بڑے ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے، رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کے دوران وہ ٹی وی چینلز کی پہلی ترجیح تصور کیے جاتے تھے۔ رمضان ٹرانسمیشن کے ایک پروگرام میں انہوں نے جب چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا سے ایک لاوارث بچہ لے کر ایک جوڑے کو دیا تو اس وقت بھی انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام ’انعام گھر‘ میں ان کے بعض جملے اور حرکات کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتاتھا،پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے 2016 میں اس پروگرام کو تین روز کے لیے روک دیا تھا۔ ایک اور نجی ٹی وی چینل پر ان کے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ میں انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور بلاگرز پر ذاتی حملے بھی کیے، پیمرا نے شہریوں کی شکایات پر یہ پروگرام بند کر دیا اور انہیں عوام سے معذرت کی ہدایت جاری کی۔ القصہ مرحوم کی عروج و زوال اور نفرت و محبت میں پروئی زندگی کی مالا اپنے اندر کئی اسباق حیات کے موتی سمیٹے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اگلی منازل آسان فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button