ColumnKashif Bashir Khan

کہیں پچھتاوا نہ ہو .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

انتخابات 2013کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم برسراقتدار آئی، عوام بدترین دہشت گردی کا سامنا کر رہے تھے۔ بلوچستان میں عالمی طاقتوں کا مکروہ کھیل جاری تھا اور پاکستان غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا تھا۔حکومت سنبھالتے ہی نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے کا اعلان کیا۔ عرفان صدیقی مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم میں شامل تھے، ملک کے مختلف حصوں میں بدترین دہشت گردی کے باعث عوام اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں ہو رہی تھیں۔ طالبان کے ساتھ کئی ماہ تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا گیا لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کو پھیلانے والوں نےحملے نہ روکے اور اپنی کارروائیاں بدستور جاری رکھیں۔ٹی وی چینلز پر بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کے حق میں حکومتی ترجمان اور کچھ صحافی روزانہ کی بنیاد پربات کررہے تھے، ایک دن جب میں ٹی وی پروگرام میں آن ایئر تھا ، بریکنگ نیوز آئی کہ بارودی سرنگیں پھٹنے سے قریباً 56 فوجی افسران اور جوان شہید ہوگئے ہیں، ان میں ایک میجر جنرل بھی شامل تھے لیکن جہاں ایک جانب حکومت وقت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والوں اور ریاست کی رٹ کو ناکام بنانے والوں سے مذاکرات کر رہی تھی تو دوسری جانب ان کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی ہو رہی تھی۔پچاس سے زیادہ فوجیوں کی شہادت کے بعد بھی ایک حکومتی ایم این اے جن کا تعلق چنیوٹ سے تھا، اور وہ آج بھی نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی ہیں، ان کا بیان تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو جاری رہنا چاہیے، لیکن اسی رات پاک فوج نے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیااور اس کے بعد ہم سب نے آنے والے سالوں میں بلوچستان اور کراچی کو بتدریج دہشت گردی سے نجات حاصل کرتے دیکھا۔2016 میں کراچی بھی اپنے اصل کی طرف واپس لوٹنا شروع ہو چکا تھا اور جس عروس البلاد شہر کو چھ حصوں میں بانٹاگیا تھا اس کی رونقیں واپس آنی شروع ہو گئی تھیں۔

پاکستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہ عالمی طاقتوں کے مفادات اور اس خطہ میں اپنی من مانی کے تناظر میں ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔2013 میں دنیا میں بلوچستان کی علیحدگی کی باقاعدہ تاریخیں دی جا رہی تھیں یعنی بلوچستان عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنا ہوا تھا، لیکن ہماری سکیورٹی ایجنسیوں نے بہت بڑی جنگ لڑی اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ افواج پاکستان نے بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی عالمی سازش ناکام بنائی بلکہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی پاکستان دشمن تکون کے دانت کھٹے کئے،لیکن یہ جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور پچھلے قریباً سات،آٹھ سال سے پاکستان میں ففتھ جنریشن وارشروع کر دی گئی تھی۔اب اس کی اصل حقیقت تو مقتدر حلقے ہی جانتے ہیں لیکن جب ہم جیسے صحافیوں نے عراق،یمن،مصر،شام،لبنان اور لیبیا وغیرہ کو تباہ ہوتے دیکھا تو ہمیں ایسا لگا کہ پاکستان پر بھی یہ وار کیا جا رہا ہےاور پھر جب کراچی،بلوچستان اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات میں بدترین بیرونی مداخلت پر غور کیا تو سمجھ آئی کہ اس ففتھ جنریشن وار کا مقصد نہ صرف پاکستان کے عوام کو آپس میں لڑانا ہے بلکہ عوام کو افواج پاکستان کے سامنے کھڑا کرنا ہے۔

بطور صحافی اور اینکر پرسن مجھے فخر ہے کہ میری تحریریں اور پروگرام ہمیشہ ففتھ جنریشن وار کے خلاف برہنہ تلوار کی مانند نظر آئے۔کراچی کی لسانی تنظیم کے سربراہ سے لیکر براہمداغ بگٹی،آبیار مری اور دوسرے تمام ایسے سیاستدان اور علیحدگی پسند شخصیات اور گروپس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے میں بطور صحافی میں نے فرنٹ فٹ پر بے لوث کھیلا۔مطمئع نظر یہ تھا کہ افواج پاکستان کے خلاف جو آواز اٹھتی ہے اس کی سرکوبی بہت ضروری ہے۔ جب حاضر سروس جرنیلوں کے خلاف اول فول بولا گیا تو قارئین جانتے ہیں کہ اس کے خلاف مقتدر حلقوںسے بھی بلند شاید زیادہ میری آواز تھی۔ جب جلسوں میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کا نام لے کر قابل اعتراض بیانات دیئے گئے یہ میں ہی تھا جس نے ایسے بیانات کی شدید مذمت کی اور پاک فوج کے خلاف بولنے کی مذمت میں  میری تحریریں اور پروگرام ثبوت  ہیں ، میں نے ہمیشہ یہی لکھا اور کہا کہ ایسے تمام افراداور گروپس کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ مختلف مواقع پرارباب اختیارسے شکوہ بھی کیا کہ ریاست اور فوج مخالف بیانات پر ان سب کو قانون کے تابع لا کر مثالی سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں، لیکن بطور صحافی مجھے فخر ہے کہ ریاست اور فوج مخالف ہر بیانیہ  پر ملک کے تمام ایسے سیاست دانوں اور شخصیات کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کی،لیکن اپریل 2020 کے بعد جو ملکی سیاسی صورتحال بنی وہ مجھ جیسے صحافی کو بھی حیران کر گئی۔یہ میری صحافتی زندگی کا پہلا موقع تھا کہ یہ سب ہوتے میں نے دیکھا۔ جنرل ضیا الحق اور مشرف کے مارشل لاء میں بھی ایسی صورتحال کا سامنا پاکستان کو نہیں ہوا تھا لیکن گزشتہ دو تین سالوں میں فوج مخالف بیانئے کو سختی سے نہ نمٹنے کا نتیجہ آج سامنے آ چکا ہے اور جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔سپہ سالار پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھاجا رہا ہے۔آئین پاکستان کے مطابق تو پاکستان کی سیاست میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن اگر زمینی حقائق کے دیکھیں تو مقتدر حلقوں کا پاکستان کے امور سیاست اور حکومت میں ہر دور میں عمل دخل رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی دفاعی اور خارجہ امور میں پینٹاگون اور سی آئی اے کا عمل دخل ہوتا ہے اور پاکستان جو کہ چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے کہ پالیسی معاملات میں بھی پاک افواج کا’’ان ٹیکٔٔضروری ہے،لیکن میری پریشانی کا باعث پاک فوج کے خلاف عوامی ردعمل ہے اورعوام میں یہ بیانیہ تیزی سے پھیل چکا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں لانے میں مقتدر حلقوں کا ہاتھ ہے، یہ صورتحال نہایت خطرناک ہے اور اسے ذائل کرنے کے لیے اب فوج کے ترجمان تعلقات عامہ کی پریس کانفرنسوں سے کام نہیں چلنے والا۔مقتدر حلقوں کو اس تاثر کو ذائل کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھ جیسا صحافی بھی جب ماضی قریب میں پاک افواج کے خلاف بولنے والوں کو اقتدار میں بیٹھا دیکھتا ہے تو اسے بھی ففتھ جنریشن وارکے تناظر میں کئے ہوئے پروگرام اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود لکھی ہوئی تحریروں کے ضائع ہونے کا احساس ہوتا ہے۔

پاک فوج پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو ملکی سلامتی کا ضامن ہے اور موجودہ ملکی سیاسی حالات جو کہ بند گلی میں پہنچ چکے ہیں متقاضی ہیں کہ پاک فوج اپنا قومی فریضہ سرانجام دے اور 1993 کی طرح تمام فریقین کو بٹھا کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرے کہ یقین جانیے اس کے علاوہ موجودہ بدترین حالات سے نکلنے کو کوئی بھی حل نظر نہیں آ رہا۔افسوس تو اس صورتحال کا ہے کہ ففتھ جنریشن کی جس جنگ کو میں نے اور لاتعداد محب وطنوں نے قومی فرض سمجھ کر لڑا ۔  یقین مانئے عوام کی بہت بڑی اکثریت کو بھی یہ ہی دکھ ہے کہ ماضی میں مقتدر حلقوں اور قوتوں کے خلاف زہر اگلنے والے آج اقتدار کے مالک ہیں، ملک میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا اور اچھا نہ کرنے والے بھی تمام ملبہ بہت طریقے اور سلیقے سے افواج پاکستان پر ڈال رہے ہیں جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔مقتدر حلقوں کو اپنا کردار فوری ادا کرنا ہوگا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button