ColumnKashif Bashir Khan

جان لیوا مقبولیت! کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان میں یحییٰ خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان تھے تو ملک کے مشرقی حصے کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے اور بنگالی کی اکثریت اپنے حقوق کی بات کر رہے تھے اور شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں اقتدار آمر سے عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا بھر پور مطالبہ کر رہے تھے۔اسی زمانے میں مشرقی پاکستان میں شدید سیلاب ا ٓیا اور ہر جانب سے 1970 میں ہونے والے عام انتخابات کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنے کا مطالبہ سامنے آ گیا لیکن جنرل محمد یحییٰ خان نے انتخابات ملتوی نہ کیے بلکہ ان کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ان انتخابات کے انعقاد کے پیچھے جنرل یحییٰ خان کی نیک نیتی ہرگز نہیں تھی بلکہ اس کی بھی ایک تاریخ ہے جس کا سرا اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ این اے رضوی سے ملتا ہے۔انتخابات سے قبل آئی بی کے سربراہ رضوی نے اس وقت کے حکمران جنرل یحییٰ خان کو مکمل یقین دہانی کروائی کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں کسی کو بھی مکمل مینڈیٹ نہیں ملے گا بلکہ منقسم مینڈیٹ ملے گا جس کی وجہ سے جنرل یحییٰ خان متحدہ پاکستان کے صدر برقرار رہ سکیں گے اور شیخ مجیب جن آئینی ترامیم کی بات کرتا ہے تو منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے وہ بھی نہ کر سکے گا۔

آئی بی کے اس وقت کے چیف این اے رضوی نے صدر یحییٰ خان کو اس قدر خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے سیلاب کے باعث بدترین حالات کے باوجود ملک میں عام انتخابات کروانے پر بضد ہو گئے۔آئی بی چیف رضوی اور جنرل غلام عمر(چیئرمین نیشنل سکیورٹی کونسل) مشرقی پاکستان میں مولانابھاشانی اور مغربی پاکستان میں قیوم خان کو بھاری فنڈنگ کرتے رہے تاکہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریت لینے سے روک سکیں۔جب بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے وہی رقم جو رضوی نے ملک کی بڑی کاروباری شخصیات کو ڈرا کر حاصل کی تھی،  میں سے کچھ رقم واپس لی اور جنرل غلام عمر کو ریٹائر کر دیا۔

جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کے مطابق1970 میں انہیں ملک کی بڑی کاروباری شخصیت روشن علی بھیم جی نے شکایت لگائی کہ آئی بی چیف رضوی انہیں اور باقی کاروباری شخصیات کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے ڈرا دھمکا کر اور غلیظ زبان استعمال کر کے بھاری رقوم ہتھیا رہا ہے۔جنرل ابو بکر عثمان مٹھا کے بقول جب انہوں نے جنرل عبدالحمید(چیف آف سٹاف)کو اس بابت بتایا تو ان کے بلانے پر صرف جنرل غلام عمر وہاں پہنچے اور دوسرا کوئی ذمہ دار نہ پہنچا۔1970 کی انتخابات کے بعد اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے آئی بی چیف رضوی کو بہت بری طرح سے گالی گلوچ کا نشانہ بنایا تھا کہ اس کی رپورٹ کے مطابق تو مشرقی اور مغربی پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو گی اور ملک میں ممکنہ آئین سازی جو شیخ مجیب کرنا چاہتا تھا وہ ممکن نہیں ہو سکے گی۔

آئی بی چیف کی غلط رپورٹس بھی سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک بڑا سبب تھیں۔1977 میں جب ملک میں بیرونی فنڈنگ سے بڑی احتجاجی تحریک اور مظاہرے شروع ہوئے اوراپوزیشن اور بھٹو صاحب کے درمیان معاہدہ قریباً طے ہو گیا تھا تو ملک میں مارشل لاء لگاکربھٹو صاحب اور اپوزیشن رہنماؤں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔سننے میں آیا ہے کہ
مارشل لاء کے سات دن بعد 12 جولائی کو جنرل ضیا اور جنرل فیض نے مری ریسٹ ہاؤس میں بھٹو سے ملاقات کی جس میں جنرل فیض علی چشتی کے بقول جنرل ضیا نے بھٹو سے کہا کہ سر یہ صرف وقتی حراست ہے اور جلد ہی اقتدارآپ کا ہوگا۔ آپ بس بے فکر رہیں اور آرام کریں۔ ‏اس کے تین دن بعد 15 جولائی کو جنرل نے بھٹو سے دوسری ملاقات کی۔بھٹو صاحب کو اس دوسری ملاقات میں بھی مغالطہ تھا کہ جنرل ضیا کو الیکشن کروانے پڑیں گے۔ اس لیے بھٹو نے بہت سخت اور ترش لہجے میں جنرل ضیا کو تنبیہ کی کہ آئین کو معطل کرنے والوں کے لیے موت کی سزا لکھی ہوئی ہے۔‎‏اس ملاقات کے اگلے ہی روز بھٹو کا پرسنل سٹاف اُس سے واپس لے لیا گیا۔

23 دن بعد 28 جولائی کو بھٹو کو حفاظتی تحویل سے رہا کردیا گیا اور انہیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری سے پنڈی لایا گیا جہاں انہوں نے جنرل فیض کیساتھ چائے پی اور پھر وزیراعظم کے طیارے میں بٹھاکر اُنہیں لاڑکانہ رخصت کیا گیا۔ اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہےلاڑکانہ میں سابقہ وزیراعظم(جو کہ ایجسنیز کی رپورٹس اور اندازوں کے مطابق انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے) کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ عوام ایک رات پہلے سے اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جوق در جوق اکٹھی ہو چکی تھی۔یہ مناظر جنرل ضیا کے لیے حیران کُن بھی تھے اور پریشان کن بھی۔ مارشل لاء کے باوجود عوام اتنی تعداد میں ذوالفقار علی بھٹو کے لیے باہر نکل رہی تھی۔ یہ بات جنرل ضیا کے لیے ناقابلِ فہم تھی اور اُس کوایجنسیز کی طرف سے دی گئی تمام تر رپورٹس کے برعکس بھٹو نہ صرف عوام میں مقبول تھا بلکہ شاید مارشل لاء کے ہونے کی وجہ سے حد سے زیادہ مقبول ہو چکا تھا۔بھٹو کی عوامی مقبولیت سے بہت سے تاریخ کا ادراک رکھنے والے انگریزی دان صحافیوںکو بھی شدید پریشانی لاحق تھی کہ ہمارے دعوئوںکے برعکس یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ہر شہر اور گائوں بھٹو کے نعروں سے گونج رہا تھا۔بھٹو کی حمایت میں نکلنے والے، ان کے جلسوں اور جلوسوں میں شامل نوجوانوں کاکہنا تھاکہ مبینہ دھاندلی کے بعد ہم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مایوس ہو چکے تھے لیکن ہم نے بھٹو صاحب سے ہی سیکھا ہے کہ اپنے حق کے لیے باہر نکلیں اور احتجاج کریں۔اس کے بعد جس دن ذوالفقار علی بھٹو اپنے کراچی والے گھر70 کلفٹن جانے کے لیے کراچی اسٹیشن پہنچے تولاکھوں لوگوں کا جمِ غفیر تھا جس کو کوئی پولیس یا فوج کنٹرول نہیں کر سکتی تھی۔

کراچی اسٹیشن سے گھر تک کا آدھے گھنٹے کا سفر اُس ہجوم کی وجہ سے دس گھنٹے میں طے ہوا۔عوام سمجھ رہے تھے کہ مارشل لاء کے باوجود ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کے بھٹو کی حمایت میں باہر نکلنے میں واضح اشارہ ہے کہ الیکشن ہوں گے اور بھٹو اقتدار میں واپس آجائے گا لیکن بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے  لاکھوں کی تعداد میں عوام کو سڑکوں پر دیکھ کرخوفزدہ جنرل ضیا مزید خوفزدہ ہورہا تھا۔وہ اتنا سادہ لوح بھی نہیں تھا کہ یہ بات نہ سمجھ سکتا کہ اگرصاف شفاف الیکشن ہوگئے تو بھٹو اکثریت لیکر واپس آجائے گا۔پھر اس نے پیپلز پارٹی کو ہر صورت الیکشن سے باہر رکھنے کا تہیہ کر لیااور 3 ستمبر 1977 کی رات 4 بجے آرمی کمانڈوز نے بھٹو کے کراچی والے گھر کو گھیر لیا اور بھٹو کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔اس کے بعد اس وقت کی عدالتوں کی مارشل لاء حکام کے ساتھ شرمناک سازباز کی ایک طویل داستان ہے۔اس مقصد کے لیے بھٹو کے خلاف ایک بغض سے بھرے جج مولوی مشتاق کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بناکر قتل کے ایک مقدمے میں پھنسا کر تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔

1970 میں عام انتخابات میں متحدہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج اور 1977 میں بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے فیصلوں میں ملکی انٹیلی جنس اداروں کے رپورٹیںBackfireکر گئی تھیں اور ان کا نتیجہ مختلف نکلا تھا، جس کے بعد پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور پھر دنیاکے سب سے ذہین و فطین سیاست دان جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا معمار بھی تھا کی گردن لمبی کر دی گئی۔اگر آج کے ملکی بدترین حالات کا جائزہ لیں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کا فیصلہ جو کہ بظاہر اتحادی جماعتوں کے عدم اعتماد کی صورت سامنے آیا میں بھی سب اندازے اور رپورٹیں الٹی پڑ چکی ہیں اور عوام کی بہت ہی بڑی تعداد عمران خان کی طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔دشمن اپوزیشن آج بھی کم و بیش وہی ہے اور سازش اور مداخلت بھی وہاں(امریکہ) سے ہی ہو رہی ہے جہاں سے 70 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ کردار و ہی ہیں لیکن آج بھٹو کی جگہ عمران خان لے چکا کہ اس کے ہر بیان کو زرخرید میڈیا کے ذریعے منفی رنگ دیا جا رہا ہے اور بھٹو کی طرح اس پر کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر کبھی اسے غدار اور کبھی فتنہ کہا جا رہا ہے۔کہنے والے اگر کوئی نیک دامن یا محب وطن ہوں تو بات سمجھ آتی ہے لیکن کہنے والوں کی اکثریت پر تو ملکی دولت کو کرپشن کے ذریعے لوٹنے کے بدترین الزامات بلکہ مقدمات ہیں۔1970 اور1977 کے برعکس ایک فرق ضرور نظر آ رہا کہ بھٹو کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن پر امریکہ سے ڈالر لینے کے الزامات اور ثبوت تو تھے لیکن ملکی دولت لوٹنے کے الزامات نہیں تھے جبکہ آج عمران خان جن سے برسر پیکار ہے ان پر ملکی دولت لوٹنے کے الزامات نہیں بلکہ مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اور کچھ کو تو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔عمران خان کی موجودہ بے پناہ مقبولیت سے مجھے تو ڈر ہی لگتا ہےکہ یہ مقبولیت ماضی کے ایک بہت ہی مقبول پاکستانی رہنما کی جان لے چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button