ColumnImtiaz Aasi

سود کی رقم سے سبسڈی جائز ہے؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

حکومت نے حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ عازمین حج کو ڈیڑھ لاکھ روپے سبسڈی دے کر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے ۔قرآن نے جب یہ واضح کر دیا ہے کہ حج صرف انہی لوگوں پر فرض کیا گیا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ حجاج کے بہبود فنڈ پر ملنے والے منافع کی رقم سے عازمین حج کو سبسڈی دینا شرعی لحاظ سے جائز ہے۔ وزیر مذہبی امور مفتی عبدل شکور کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو حج کے اخراجات گیارہ لاکھ ہوتے ۔حاجیوں کے بہبود فنڈ کے اربوں روپے پر ملنے والے سود سے عازمین حج کو سبسڈی دے کر حکومت نے کون سا تیر مارا ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے مارنا مشکل تھا۔وزیر موصوف نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرکے عازمین حج کو خوش کر دیا ہے۔اب سبسڈی کا معاملہ شرعی رائے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے گا ۔سی آئی آئی بھی حکومت کا حصہ ہے جو سبسڈی کو جائز قرار دے گی۔

اس میں شک نہیں عازمین حج کی خواہش ہوتی ہے کہ حج کے اخراجات کم سے کم ہوں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ سود کی رقم سے انہیں سبسڈی دے دی جائے۔ حکومت کو سبسڈی دینا تھی تو ریگولر بجٹ دیتی نہ کہ سود کی رقم سے۔ سعودی حکومت نے اپنی پالیسی کے تحت امسال کسی ملک کو آبادی کے لحاظ سے حج کوٹہ نہیں دیا ۔آبادی کے اعتبار سے کوٹہ ملتا تو پاکستان سے دو لاکھ سے زیادہ عازمین حج سعودی عرب جاتے۔او آئی سی کے فارمولے کے تحت ایک ہزار آبادی پرایک عازم حج کا کوٹہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ابھی تک پرانی مردم شماری کے مطابق عازمین حج کا کوٹہ دیا جاتا ہے۔نئی مردم شماری کے مطا بق کوٹہ دیا جائے تو پاکستان سے کم از کم تین لاکھ عازمین حج سعودی عرب بھیجے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا وائرس کے خاتمے کے باوجود سعودی حکومت نے تمام ملکوں کو بہت کم کوٹہ دیا ہے حالانکہ سعودی حکومت ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ حجاج کرام کے لیے انتظامات کرتی تھی ۔عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کے لیے انتظامات سعودی حکومت کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔سعودی حکومت نے ماضی کے برعکس حج وعمرہ کو ایک طرح سے ٹورازم کادرجہ دے دیا ہے۔ اسی لیے دو سال کے وقفے کے بعد عازمین حج کے اخراجات میں خلاف توقع اضافہ ہو گیاہے۔ 2019 کے حج میں منیٰ میں کیٹگری ڈی کے خیموں کا کرایہ امسال کئی گنا بڑھا کرپانچ ہزار چار سو پچاس ریال ہوگیا ہے۔وہ عازمین حج جو جمرات (شیطانوں)کے قریب قیام کرنے کے خواہش مند ہوں گے انہیں کیٹگری اے میں رکھا جائے گا جن کے خیموں کے اخراجات گیارہ ہزار ایک سو ریال ہوں گے۔

کیٹگری بی کے خیموں کا کرایہ آٹھ ہزار ریال اور کیٹگری سی میں قیام کرنے والوں کو چھ ہزار ریال ادا کرنا پڑیںگے ۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی شرح میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے گذشتہ سالوں میں یہ اخرایات زیادہ سے زیادہ سات سو ریال ہوتے تھےامسال ٹرانسپورٹ کا کرایہ اٹھارہ سو ریال ہے جو پاکستانی کرنسی میں ستانوئے ہزار دو سو روپے بنتے ہیں۔اب ہم وزارت مذہبی امور کے حج انتظامات کی طرف آتے ہیں۔وزیر موصوف کا دعویٰ تھا وہ سعودی حکومت سے عازمین حج کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل کر رہے ہیں۔اب جب کہ عازمین حج کی روانگی کا وقت آگیا ہے انہوں نے سعودی حکومت سے حاصل کی جانے والی سہولتوں سے عازمین حج کو آگاہ نہیں کیا۔سعودی حکومت نے کیٹگری ڈی کے خیموں کے اخراجات میںتمام ملکوں کے لیے یکساں مقرر کئے ہیں۔

وزارت مذہبی امور دو سال فارغ رہنے کے باوجود ماسوائے پنجاب کے کسی صوبے میں عازمین حج کے تربیتی پروگراموں کا انتظام نہیں کر سکی ۔سعودی تعلیمات کے مطابق ہر سال پاکستان سے عازمین حج کی سعودی عرب روانگی کا سلسلہ یکم ذولقعدہ سے شروع ہو تا تھا اب عازمین حج کو ایک ہفتہ تاخیر سے بھیجا جائے گا جب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قرب میں واقع مرکزیہ کی عمارات میں دوسرے ملکوں کے حجاج ٹھہرائے گئے ہوں گے۔ پرائیویٹ گروپس میں جانے والے عازمین حج کے انتظامات کرنے والے ٹور آپریٹروں کی نامکمل فہرست تین روز قبل سعودی عرب بھیجی گئی ہے جب کہ بقیہ ٹور آپریٹروں کی فہرست سے سعودی وزارت حج کو آگاہ نہیں کیا جاسکا۔

سرکاری سکیم میں جانے والے عازمین حج کے رہائشی انتظامات گزشتہ کئی برسوں سے عزیزیہ میں ہوتے تھے امسال عازمین حج کی کم تعداد سے کئی ہزار حاجیوں کے رہائشی انتظامات جرول میں کئے گئے ہیںجو حرم شریف میں توسیع کے بعد قریبی علاقہ تصور کیا جاتا ہے ۔سعودی عرب سے آمدہ اطلاعات کے مطابق عزیزیہ میں جن مکانات کا رہائشی کرایہ زیادہ سے زیادہ 2200 ریال ہے وہ 2600 ریال میں حاصل کی گئی ہیں عمارات کے معاہدوں کو دیکھا جائے تو بہت سے معاملات منظر عام پر آجائیں گے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ عازمین حج کے لیے جو عمارات حاصل کی گئی ہیں ان کا کرایہ بہت کم تھااس کے برعکس عازمین حج سے زیادہ کرایہ وصول کیا گیا ہے۔اس حقیقت کے باوجود سعودی حکومت نے ہر شے پر پندرہ فیصد ٹیکس لگایا ہے،

عازمین حج کے قیام کے لیے جو رہائشی معاہدے کئے گئے ہیں ان میں بڑے وسیع پیمانے پر کرپشن کی اطلاعات ہیں۔ ہمارا وفاقی وزیر مذہبی امو ر سے سوال ہے اگر رہائشی معاہدوں میںگڑبڑ نہیں تو ان معاہدوں کو قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی میںپیش کیا جائے جس کے بعد دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گا۔ 1994 کی بات ہے ہم وفاقی سیکرٹری مذہبی امور لطف اللہ مفتی کے دفتر میں بیٹھے تھے ایک بڑے سیاست دان اور مذہبی شخصیت نے انہیں فون کیا اور مکہ مکرمہ میں ایک من پسند پاکستانی نژاد سعودی عالم دین سے حاجیوں کے لیے مکانات لینے کی سفارش کی جس پر سیکرٹری نے انکار کر دیا۔حج جیسے معاملات میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرنا چاہیے ۔ سود کی رقم سے سبسڈی دے کر حکومت حاجیوں کی کوئی خدمت نہیں کر رہی بلکہ قرآنی احکامات کی نفی کر رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button