Ahmad NaveedColumn

میر جعفر،میر صادق اور جوتیوں کا ڈھیر … احمد نوید

احمد نوید

میر جعفر اور میر صادق دو ایسی شخصیات تھیں، جن کا ہندوستان کی تاریخ میں بہت تذکرہ ملتا ہے ۔ دونوں شخصیات اپنی نمک حرامی اور غداری کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ ہندوستان کی غلامی کی تاریخ لکھنے والا میرا جعفر وہ بدبخت شخص تھا جس کے لالچ ، خود غرضی اور غداری نے ہندوستان کو دو سو سال تک برطانیہ کا غلام بنائے رکھا۔ ہندوستان میں برطانوی راج کا دروازہ کھولنے والا نمک حرام میر جعفر ہندوستان کے لاکھوں لوگوں کی قسمت برباد کرنے کا باعث بنا۔ اس شخص کی وجہ سے ہندوستان کی قسمت میں دھوکہ دہی لکھی گئی اور یہ خطہ دنیا کی سب سے بڑی جابرانہ سلطنتوں میں سے ایک بنا۔
بنگال(موجودہ بنگلہ دیش)کے نواب سراج الدولہ بنگال، بہار اور اڑیسہ کے آخری آزاد حکمران تھے۔ 1757میں نواب سراج الدولہ کی شکست سے بنگال میں یعنی ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں جرنیل تھا۔ نہایت بد فطرت ، بد کردار، مکار ، لالچی ، نمک حرام اور غدار میر جعفر کی سراج الدولہ سے غداری کی وجہ سے نواب کو بنگال میں شکست ہوئی اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار ہونے کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہوا۔ انگریزوں نے پلاسی کی جنگ سے قبل میر جعفر کو بنگال کی نوابی کی پیش کش کی تھی ۔ میر جعفر جو پہلے سے ہی بنگال کا نواب بننے کا خواہش مند تھا، سراج الدولہ سے نمک حرامی اور غداری کرنے کے لیے  تیار ہو گیا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ پلاسی کی جنگ درحقیقت لڑی ہی نہیں گئی اور اس جنگ سے قبل ہی میر جعفر جو اس وقت نواب سراج الدولہ کی فوج کو کمان کر رہا تھا، لڑائی سے قبل ہی انگریزوں سے مل چکا تھا۔ یوں اس مختصر سی جنگ میں نواب کو میدان میں شکست ہوئی اور وہ گرفتار ہو کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے ہاتھوں شہید ہوا۔ یہ غداری اور سازش کی کہانی تھی جو اپنا رنگ لائی ۔ بنگالی زبان میں پلاشی پھولوں کو کہتے ہیں ۔ پلاشی کا سارا علاقہ پھولوں کا علاقہ تھا۔ تاریخ
نے دیکھا کہ اُس پھولوں کے علاقے میں غلامی کے کانٹے بو دئیے گئے، جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیا گیا۔ وہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی ۔ جس کا نام بعد میں ہندوستان کے لوگوں نے نمک حرام ڈیوڑھی رکھ دیا۔ آج بھی وہ جگہ میر جعفر کی نمک حرامی اور غداری کی وجہ سے نمک حرام ڈیوڑھی کہلاتی ہے ۔
میر جعفر نے جو کچھ نواب سراج الدولہ کے ساتھ کیا۔ نمک حرامی ، غدار ی اور سازشوں کی ایسی ہی کہانی میرصادق نے میسور کے ٹیپو سلطان کے ساتھ کھیلی۔اپنی شجاعت ، دلیری اور بہادری کے لیے مشہور شیر میسور ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کرنے والا میر صادق بھی فطرتاً مکار اور لالچی تھا ۔ ٹیپو سلطان کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز میر صادق کو ٹیپو سلطان نے کسی غلطی پر عہدے سے فارغ کر دیا تھا اور جب بحال ہوا تب ، بھی میر صادق نے اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے  انتقام کو دل میں چھپائے رکھا۔ اپنی برطرفی اور بحالی کے بعد میر صادق نے کلام اللہ کی قسم کھاتے ہوئے ٹیپو سلطان کواپنی وفاداری کا یقین دلایا۔
دوسری طرف انگریزوں کو جب پتہ چلا کہ میر صادق بدلے کی آگ
میں جل رہا ہے تو انگریزوں نے اُسے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ ٹیپو سلطان کے خلاف اُن کا ساتھ دے گا تو اُسے سر کا ر خداداد کا حاکم بنا دیا جائے گا۔
میر صادق نے انگریزوں کی آفر کو قبول کرتے ہوئے اپنے محسن ٹیپو سلطان کے خلاف غداری اور نمک حرامی کرتے ہوئے سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا ، اُس نے رعایا پر تشدد کرنا شروع کر دیا تا کہ رعایا سلطنت سے بد دل ہوں ۔ میر صادق کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا اور سلطنت کے بہت سے اہم امور کی خبریں ٹیپو سلطان تک پہنچنے ہی نہیں دیتا تھا ۔ ٹیپو سلطان ہندوستان کا وہ بیٹا تھا جس کے باپ سلطان حیدر علی نے جنوبی ہندوستان میں 50سال تک انگریزوں کو بزور طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریز افواج کو شکست دی ۔
شیر کے گھر شیر پید ا ہوا۔ جس نے گیدڑکی سو سالہ زندگی کے مقابلے میں شیر کی ایک دن کی زندگی کو بہتر قرار دیا۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگا پٹم کی شکست سے قبل انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے قلعے کوچاروں طرف سے گھیر لیاتوٹیپو سلطان محل چھوڑ کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ خیمے میں رہنے لگے اور اس محاصرے کے چوتھے روز جب ٹیپو سلطان قلعے میں ایک درخت کے نیچے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک رونے اور شور مچانے کی آواز یں سنائی دینے لگیں ۔ سلطان نے شور کی وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ شاہی توپ خانے کا سردار ہلاک ہو چکا ہے اور انگریز فوج قلعے کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے ۔ ٹیپو سلطان دستر خوان سے اُٹھے اور چند جانثاروں کو ساتھ لے کر قلعہ کے دریچے سے (بیرونی دروازہ) سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کے لیے  بڑھے۔ ٹیپو سلطان کے قلعہ سے باہر نکلتے ہی میر صادق نے دریچے کا دروازہ اندر سے بند کر دیا تاکہ ٹیپو سلطان واپس قلعہ میں نہ آسکیں ۔
میر صادق ٹیپو سلطان کو انگریز فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جیسے ہی راہ فرار اختیار کرنے لگا تو سلطان کے ایک وفادار سپاہی نے اُس کا راستہ روکتے ہوئے للکارہ کہ اس غداری کا انعام دئیے بغیر میں تمہیں جانے نہیں دوں گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ٹیپو سلطان کے اس وفادار سپاہی کا نام قادر خان تھا جس نے تلوار کے ایک ہی وار سے میر صادق کا سر تن سے جدا کر دیا۔میر صادق کی لاش چار دن تک پڑی رہی اور چار دن بعد اُس کی لاش کو بغیر کفن کے قلعے کے دروازے کے پاس دفن کر دیا گیا۔شہر کے لوگ اب بھی آتے جاتے میر صادق کی قبر پر تھوکتے ، پیشاب کرتے اور ڈھیروں جوتیاں پھینک کر جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button