Ali HassanColumn

غیر سیاسی قومی حکومت کیوں نہیں ؟ … علی حسن

علی حسن

ایک بحث چل رہی ہے کہ ملک میں انتخابات فوری کرائے جائیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران اسے کہیں سری لنکا کے بعد کی مثال نہ بنادے۔ موجودہ پاکستانی حکمران پُر امید ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر سکیں گے ۔ حکمرانوں کی اس سوچ کے مخالف سمجھتے ہیں کہ مزید قرضہ لے کر پاکستان جلد یا بدیر سری لنکا بن جائے۔ فوری انتخابات بھی حل نہیں ہیں۔ یہ سیاست دانوں کی اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش اور کھیل ضرور ہو سکتاہے۔ پاکستان کو گرداب سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ نون لیگ پہلے کہتی تھی کہ فوری انتخابات کرائے جائیں پھر آصف زرداری نے کہا کہ انتخابات سے قبل آئینی انتخابی اصلاحات ہونا ضروری ہیں۔ یہ کون سے اصلاحات کی بات کرتے ہیں۔ ان کی آئینی انتخابی اصلاحات کی تجاویز کیا ہیں اور کیا تحریک انصاف کی غیر موجودگی میں وہ قابل عمل ہوسکیںگی؟پہلےاصلاحات پھر الیکشن، فوری انتخابات کا کوئی امکان نہیں، وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف کا ملاقات میں اتفاق اور ان کے اتفاق سے آصف زرداری بھی متفق ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اتفاق پایا گیا ہے کہ ملک میں فوری انتخابات کا کوئی امکان نہیں،پہلے انتخابی اصلاحات لائی جائیں گی پھر الیکشن ہونگے۔نون لیگ کا اجلاس لندن میں نا معلوم مقام پر رکھا گیا، جنرل ضیاء الحق نے بھی یہی کہا تھا کہ پہلے احتساب پھر انتخابات لیکن ان کی زندگی اور بعد میں احتساب نہیں ہو سکا۔

لندن میں ہونیوالی ملاقات میں عام انتخابات سے متعلق بھی بات چیت ہوئی اور خاص طور پر پی ٹی آئی کی جانب سے جلد انتخابی مطالبے کی وجہ سے نون لیگ اور پی پی کا قیاس ہے کہ تحریک انصاف بڑی کامیابی حاصل کر لے گی۔ پنجاب میں جو انتخابات کی جنگ کا میدان بنے گا، نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان براہ راست مقابلہ متوقع ہے۔ سر دست پی پی یا دیگر جماعتوں کی مقابلہ کی صورت حال نہیں ہے۔ پی پی سمجھتی ہے کہ تاخیر سے انتخابات کا انعقاد اس کے لیے بہتر ہوگا۔ نون لیگی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران لیگی قائد نواز شریف نے سابق صدر آصف زرداری سے فون پر ہونے والی گفتگو سے وزیراعظم شہباز شریف کو آگاہ کیااور ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف کی ملاقات کے دوران اتفاق پایا گیا کہ ملک میں جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں، جنرل الیکشن انتخابی اصلاحات مکمل ہونے پر ہی ہونگے۔

آصف علی زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف سے بات کی اور سمجھایا، جیسے ہی انتخابی اصلاحات ہوں الیکشن کرائیں جبکہ انتخابی اصلاحات میں جتنا وقت لگے اس کے بغیر الیکشن میں نہیں جائیں گے۔ آج تک
میں کہتا آیا ہوں کہ الیکشن کرائیں، ہم نے حکومت بنا لی ہے اور وہ چاہ رہے ہیں کہ الیکشن کرائیں، ہم نے کب کہا کہ ہم الیکشن نہیں کرائیں گے؟ جب کہتا تھا یہ دھاندلی کی حکومت ہے الیکشن کرائیں توکوئی نہیں سنتا تھا،انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن کی طرف جائیں گے، الیکشن میں جا کر یہ کیا کرے گا۔الیکشن اصلاحات تین ماہ میں ہوں، چارماہ میں یا جب بھی ہوں تو ہی الیکشن کرائیں گے، ہمارے گیم پلان میں انتخابی اصلاحات اور نیب میں اصلاحات کرنا شامل ہے۔ آصف علی زرداری کی یہ بات معنی خیز ہے کہ ’’ہمارے گیم پلان میں انتخابی اصلاحات اور نیب میں اصلاحات کرنا شامل ہے‘‘۔ نیب کو پاکستانی سیاست دان ایک بے اختیار سا برائے نام ادارہ بنا دینا چاہتے ہیں تاکہ نیب ’’دانتوں کے بغیر کرپٹ عناصر کو کاٹنے کی پوزیشن ‘‘ میں نہ ہو۔

سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ الیکشن کا اعلان ہونے تک ان کی احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔ قیامت کی نشانی ہے کہ آصف زرداری نیب میں اصلاحات کریں گے۔ شہباز شریف پر 24 ارب روپے کے کیسز ہیں، اب این آر او مل رہا ہے، ایف آئی اے کیسز ختم کر رہی ہے۔ ( ایف آئی اے مقدمات ختم کرنے کے بارے میں خبر کی تردی کر چکی ہے)۔عمران خان کے اس اعتراض کے حوالے سے بھی سیاسی مبصرین معترض ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور کابینہ کے کچھ اراکین کیوں لندن جا کر مشورے یا ہدایات لے رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ انہیں معاشی اور سماجی مسائل کے حل میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی، اسی لیے ان کی ترجیح سیاست ہو جاتی ہے۔ جس طرح عمران خان کے پاس ملک کی معیشت کے حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں تھا اسی طرح پی ڈی ایم کے تحت قائم سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے پاس بھی کوئی منصوبہ کیا بلکہ معلومات بھی نہیں تھیں۔ اسی لیے انہیں اب احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے ’’ جلتی ہوئی یہ لکڑی کیوں اٹھائی‘‘۔اگر پاکستان کے سیاست دان پاکستان کے معاشی مسائل کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پاکستان کے لیے کسی آئی ایم ایف قرضہ کے بغیر معیشت کو درست کرنے کے اقدامات پر مبنی پروگرام دینا چاہیے۔ ذہن سے آئی ایم ایف کی سہولت کاری کو سرے سے نکال دینا چاہیے۔

آصف زرداری کے ساتھ ساتھ نون لیگ بھی الیکشن اور آئینی اصلاحات جلد از جلد مکمل کرنے کا کہتی ہے کیوں کہ اس کے خیال میں اسے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر وزرا اور ارکان کی کرپشن کو ثبوت کیساتھ عوام کے سامنے لانے اور نون لیگ کو ضلعی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے کا موقع چاہیے۔ نون لیگ ہو یا پی پی ہو، وہ ’’چور چور‘‘ کے نعرے کو عمران خان کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عوام تحریک قیام پاکستان کے دوران کچھ سننے کو تیار نہیں تھے حالانکہ جید مذہبی رہنمائوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف کئی قسم کے حربے اختیار کئے تھے۔ بھٹو کی عوامی مہم جو وہ 1970 کے انتخابات سے قبل چلا رہے تھے ، ان کے سیاسی مخالفین نے طرح طرح کے الزامات عائد کئے لیکن عوام نے کان نہیں دھرا۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں عوام شیخ مجیب الرحمان کے علاوہ کسی اور کا نام ہی سننا نہیں چاہتے تھے۔ الطاف حسین کی سیاسی تحریک کے دوران بھی لوگ الطاف مخالف سیاسی عناصر کی کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے اور اب عمران خان کی عوامی مہم کے دوران بھی عوام ان کے خلاف کسی بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ اس مرحلے میں ان کے خلاف استعمال کیا جانے والا ہر حربہ پلٹ جائے گا۔

بظاہر عمران کے خلاف کوئی چال کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی البتہ یہ ضرور ہے کہ نون لیگ بھی پنجاب میں مقبولیت رکھتی ہے۔ جس طرح عوام کا ایک گروہ عمران خان کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں اسی طرح دوسرا گروہ نون لیگ کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ ایسی صورت میں انتخابات کے انعقاد میں جتنی تاخیر کی جائے گی وہ عوام اور ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ تاخیر پاکستان کو دلدل کی طرف لے جائے گی۔ رہ گئی بات کہ کیا پاکستان کے معاشی حالات عام قومی انتخابات کے انعقاد کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اکثر معاشی ماہرین کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں تو پھر حل کیا ہو سکتا ہے؟ سیاسی مبصرین کے حلقوں میں یہ تجویز گشت کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ ، فوج اور صوبائی ہائی کورٹوں کے سربراہان کی مشاورت سے ایک ایسی حکومت کم از کم پانچ سال کے لیے قائم کی جائے جس میں کسی بھی سیاسی رہنما کا کسی قسم کا عمل دخل نہ ہو اور حکومت میں شامل افراد کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ مختلف شعبوں کے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل مجوزہ حکومت ملک کے معاشی حالات کے علاوہ سماجی اور انتظامی معاملات کو درست کرے۔ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کو جس میں نون لیگ اور پی پی ابھی تک شامل ہیں ، اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ملک کا برقرار رہنا ہے سب کے مفاد میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button