ColumnKashif Bashir Khan

خوفناک سیاسی منظرنامہ! … کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

گزشتہ شب میرے دو نوجوان کزن میری تیمار داری کے لیے آئے، ایک آئی ٹی سپیشلسٹ جبکہ دوسرا لاہور کے ایک بڑے عسکری تعلیمی ادارے میں لیکچرار ہے۔اِس دوران سکرین پراٹک میں عمران خان کا جلسہ چل رہا تھا۔باتوں باتوں میں دونوں بھائی کہنے لگے کہ ہم تو عمران خان کی کال کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ کال دے اور ہم سب اسلام آباد کی جانب مارچ کریں۔کزن نے بتایا کہ وہ لاہور کے جلسے میں بھی گئے ، تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اِس لیے اُنہیں جلسہ گاہ سے کافی دورپل پر ہزاروں لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر عمران خان کی تقریر سنناپڑی۔میںیہ سب سن کرسوچتا رہا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں آج عمران خان کے پیغام پر لبیک کہہ رہے ہیں تو بات بہت ہی سیریس ہے اور پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی سوچ عوام کے دل ودماغ میں سرایت کر چکی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ملکی معیشت کے بدترین حالت سے تو تمام پاکستانی پریشان ہیں لیکن اس بدترین حالت میں بھی عوام عمران خان کی بات اور بیانیہ پر یقین کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو پھر بات تو سنجیدہ بلکہ خطرناک بھی ہے کہ عوام ماضی کے حکمرانوں سے متنفر ہو کر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی اور مراعات یافتہ اشرافیہ کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت نظر آرہی ہے جو اگر چھلک گئی تو پاکستان( جو کہ ایک ایٹمی طاقت ہے) کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔پاکستان کے ہمسایہ ملک سری لنکا کے حالات سب کے سامنے ہیں اور چند سال قبل اس خطے کی ابھرتے ہوئی معیشت کا لقب رکھنے والا سری لنکا تاریخ کی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

سری لنکا میں بھی کچھ عرصہ سے دو بھائیوں کی امریکہ نواز حکومت تھی، سری لنکا کے وسائل کو اسی طرح بے دردی سے لوٹ کر ذاتی دولت اکٹھی کی گئی جیسےپاکستان کے موروثی سیاست دانوں پر الزامات ہیں لیکن معاشی بحران اور ناقدری کے بعد جو افراتفری اور انتشار اس وقت سری لنکا میں ہے وہ نہایت خوفناک اور شدید ہے۔سابق حکمران بھائیوں کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے اور ملکی دولت لوٹ کر خریدی گئی اربوں کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے، سابق حکمران اپنی جان بچانے کے لیے ایک بحری بندرگاہ میں جا چھپے ہیں۔راجہ پاکسا فیملی کے راجہ پاکسا وزیر اعظم اور ان کا بھائی گوٹابایاپاکسا صدر سری لنکا ہیں۔حالیہ پرتشدد ہنگاموں کے بعد وزیر اعظم راجہ پاکسا نے استعفیٰ دے دیا اور آج سری لنکا کی عدالتوں نے ان کے بیٹے سمیت 15 اراکین اسمبلی کے سری لنکا چھوڑنے پر پابندی لگا دی ہے۔

جبکہ عوام کی اکثریت صدر گوٹاپایاپاکسا سے بھی استعفیٰ کا شدید مطالبہ کر رہے ہیں۔پاکستان کی موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائیں تو خوفناک تصویر سامنے آتی ہے۔پاکستان کی حقیقی تصویر یہ ہے کہ پچھلے قریباً دو ماہ سے مرکز اور پنجاب میں کوئی حکومت نہیں ۔سندھ کی صوبائی حکومت کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔پاکستان کی معیشت اس وقت بے یارو مدد گار نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم ایک مہینے میں ہی اس وقت کابینہ سمیت لندن بیٹھے ہیں۔پاکستان کوآئی ایم ایف سے ریلیف ملنے کی امید نہیں نظر آرہی،ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی حالت ابتر ترین ہوتی جا رہی ہے۔پنجاب میں
طاقت سے جو حکومت بنائی گئی وہ بھی دھڑن تختہ ہونے کے قریب ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کو اس حالت میں لانے کا ذمہ دار کون ہے؟ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کو زیر بحث لائے بغیر اس مشکل وقت میں یہ نقطہ غور طلب ہے کہ اگر حکومت تبدیل کرنے کے بعد پاکستان کو ایسے ہی لاوارث چھوڑناتھا تو پھریہ تبدیلی حکومت کی بجائے ملک دشمنی ہی کہلائے گی۔

اس وقت سیاسی اور معاشی صورتحال نہایت مخدوش اور خطرناک ہے۔اتحادی حکومت کی ترجیحات میں مشکل معاشی فیصلےلینااور عوام کو ریلیف دینا شامل ہی نہیں اور ان کا تمام زور نیب کو کمزور کرنا، بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ختم کرنااور اپنے مقدمات ختم کروانے پر ہے (ایف آئی اے کا منی لانڈرنگ کیس کو بند کرنے کی استدعا)اور پھر سب سے بڑی کامیابی جو نواز شریف سمیٹنا چاہتے ہیں وہ نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی ہے جس میں اُن کا فیصلہ کن کردارہے، دوسری جانب جلد انتخابات کروانے پر زرداری اور نواز شریف کے اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں جبکہ شہباز شریف وزیر اعظم کے منصب کا مزہ لینا چاہتے ہیں،مریم صفدر کھل کر فوری انتخابات کروانے کا مطالبہ کر چکی ہیں گو کہ مریم صفدرابھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں لیکن وہ کہتی پائی جارہی ہیں کہ عمران حکومت کی غلطیوں کا ٹوکرا ہم کیوں اٹھائیں، ایسا کہتے ہوئے وہ بھول گئی ہیں کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد متحدہ جماعتیں عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا دیوتا بنا چکے ہیں اور نواز شریف کا’’ووٹ کو عزت دو‘‘اور’’سول برتری‘‘کا بیانیہ بری طرح دریا برد ہوچکاہے،

موجودہ ملکی سیاست میں عمران خان کا بیانیہ عوام کے
دلوں میں بہت تیزی سے گھر کر رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔تادم تحریر میاں نواز شریف فوری انتخابات کروانے پر اڑے ہوئے ہیں ،یہ ایک ایسا تماشہ لگا ہوا ہے جس پر دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ آج پاکستان میں ڈالر کی قیمت 192 سے اوپر چلی گئی ہے اور اسٹاک ایکسچینج کریش ہو چکا ہے، پاکستان کے ریزروز قریباً 9ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے شہباز شریف کو کسی بھی مالی امداد دینے سے گریز بلکہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا مشورہ دیاہے، حکومت 6 ارب ڈالر کی بجائے 8 ارب ڈالر حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن آئی ایم ایف کے تیل اور بجلی کے نرخ بڑھانے کے مطالبے سے بھاگنا چاہتی ہے مگر ایسا ممکن نہیں۔موجودہ حکومت کو یہ حقیقت مد نظر رکھنا ہو گی کہ سری لنکا میں موجودہ خوفناک انتشار اور انارکی کا سبب بھی آئی ایم ایف سے بروقت رجوع نہ کرنا ہی تھا۔

پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد کے حالات خوفناک ترین دور میں داخل ہونا شروع ہو چکے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آنے والی حکومت جن مقاصد کی تکمیل کے لیے اقتدار میں آئی تھی ان کا حصول ناممکن ہے۔کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ بدترین معاشی اور سیاسی مسائل کے شکار ملک کے وزیر اعظم اور اس کی کابینہ قریباً ایک ہفتہ ملک سے باہر لندن میں صرف اس لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھی ہے کہ ان کا رہنماپاکستان آنے سے قاصر ہے۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کی ابتری کی ذمہ داری جانے والی تحریک انصاف کی حکومت پر ڈالنے کو اب پاکستان میں کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں اور ایسی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوں گی۔ دکھائی یوں دیتا ہے کہ صرف ایک ماہ میں شہباز شریف حکومت ناکام ہو چکی کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج (جسے لیے بغیر کوئی چارہ نہیں) میں تاخیر بہت خوفناک ہو سکتی ہے۔مسلم لیگ نواز اس وقت بہت برے سیاسی گرداب میں پھنس چکی ہے کہ اگر فوری انتخابات کی تاریخ دیتے ہیں تو جہاں آصف علی زرداری ناراض ہوتے ہیں وہاں عوامی تائید اور حمایت بھی عمران خان کے ساتھ ہے جبکہ دوسری جانب معیشت کا جو حال گزشتہ ایک ماہ میں ہوا ہے اس کو سنبھالنے کا کوئی خاص ایجنڈا شہباز شریف کی حکومت کے پاس نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی فوری شرطیں ماننے کا مطلب عوام پر مہنگائی کا کوہ گراںگراناہو گا۔عوام میں مایوسی اور بددلی بہت خطرناک ہو سکتی ہے ، بالخصوص منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کا مقدمہ کی پیروی نہ کرنے کی درخواست کے بعد عوامی نفرت بددلی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ صورتحال میں وزیر داخلہ کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کر سکتے ہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارنے چاہئیں۔کور کمانڈر پشاور کے بارے بیانات بھی انتہائی غیر ذمہ دار اور پاک فوج میں تقسیم ڈالنے کی نہ صرف مکروہ کوشش ہیں( جتنی مذمت کی جائے کم ہے)بلکہ ان بیانات پر کارروائی ہونی چاہیے۔ان بیانات سےان سیاسی رہنماؤں کے پاک فوج کے تناظر میں مذموم عزائم کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔بہر حال ملک پاکستان کے سیاسی اور معاشی صورتحال کو ابتر ترین کرنے کا ہار موجودہ حکومت کے گلے پڑ چکا اور عمران خان کے سازش اور مداخلت کے بیانیے کی بہت بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی کے بعد پی پی اور نون لیگ کا سیاسی مستقبل بہت بری طرح متاثربلکہ دریا برد ہوچکا ہے۔ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بجائے شہباز شریف کو فوری انتخابات کا اعلان کر کے فوری نگران حکومتوں کے قیام کی جانب جانا چاہیے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کچھ ہی عرصہ میں ان سے اعتماد کا ووٹ دوبارہ حاصل کرنے کا کہا جا سکتا ہے جو وہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button