Columnمحمد مبشر انوار

حرمت روضہ رسول ﷺ …. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

بحیثیت مسلمان ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہمارے ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم نبی آخرالزماںﷺسے اپنی جان، مال، آل اولاد غرضیکہ ہر دنیاوی رشتے اور تعلق سے بڑھ کر الفت، محبت و پیار نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری یہ بنیادی تربیت میں شامل ہے کہ ہم اللہ رب العزت، محبوب خداﷺاورمقدس مقامات کی حرمت کا خیال رکھیں اور ان کے تقدس کو پامال نہ کریں۔اس پس منظر میں اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں سورۃ حجرات کی دوسری آیت میں واضح طور پر فرمایا ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے نہ بلند کرو اپنی آوازیں نبیﷺکی آواز پراور نہ زور سے بولوان کے روبروبات کرتے وقت، جس طرح بولتے ہو ایک دوسرے سے ایسا نہ ہو ضائع ہو جائیں تمہارے اعمال اور تم کونہ خبربھی ہو‘‘یعنی احترام ہر حال میں لازم ہے اور اس قدر احترام لازم ہے کہ لاعلمی میں بھی اعمال ضائع ہو سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے گذشتہ دنوں نئے وزیراعظم پاکستان کے دورہ سعودی عرب اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے دوران ایسے واقعات سامنے آئے،جن سے روضہ رسولﷺ کا تقدس پامال ہوا ،البتہ اس کے تین پہلو ہیں،جن کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے، پہلا مذہبی،دوسرا سیاسی اور تیسرا قانونی ہے۔ سب سے پہلے اس کے قانونی پہلو پر بات کرتا ہوں اور دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں اس کی حیثیت کیا ہے اور سعودی عرب اس سے کس طرح نبرد آزما ہوا ہے۔اس واقعہ کے بعدسوشل میڈیا پر سعودی وزیر خارجہ کا ایک غیر متعلقہ ویڈیو بیان زیر گردش ہے جن کا داخلی امور سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور یہ ویڈیو بھی اسلام آباد میں ہونیوالی کانفرنس کے پس منظر میں ہے۔

تاہم راقم بذات خود اس وقوعہ کا عینی شاہدہے اور واقعتاً یہ نعرے مسجد نبویﷺکے ساتھ متصل مارکیٹ کے برآمدوں میں گونجتے سنائی دئیے البتہ ان کا شور اتنا ضرور تھا کہ اس کی گونج صحن تک آ رہی تھی۔

بعد ازاں بہت سی خبریں اس واقعہ کے حوالے سے زیر گردش ہیں کہ سعودی حکومت نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ان کو حراست میں لے لیا ہے ،ان پر مقدمات درج ہو چکے ہیں ،ان میں سے فی کس کو ساٹھ ہزار ریال جرمانہ،پانچ سال قید اور تا عمر سعودی عرب داخلے میں پابندی لگا دی گئی ہے۔

سعودی قوانین کے مطابق، یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ سعودی قوانین کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے،ان پر مسجد نبویﷺ کا تقدس پامال کرنے،سیاسی نعرہ بازی کرنےاور مریم اورنگزیب کو ہراساں کرنے، ان پر آوازیں کسنے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے اور انہی الزامات کی بنیاد پر انہیں یہ سزائیں دی گئی ہیں۔امن و امان اورقانون کی بالادستی کے حوالے سے سعودی عرب میں کسی قسم کی تخصیص روا نہیں رکھی جاتی بالخصوص تارکین وطن کے لیے معاملات اور بھی سنجیدہ و سخت نوعیت کے ہو جاتے ہیں،

دوسری بات تارکین کے حوالے سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے اور اس کی ایسی کوئی بھی غیر قانونی حرکت ،نہ صرف اسے بلکہ دیگر افراد کے لیے بھی زحمت کا باعث بنتی ہے اور سب سے اہم بات کہ جس ملک میں آپ رہائش پذیر ہیں،اس کے قوانین کی پابندی ہر شخص پر لازم ہے۔

یہ تو سعودی عرب میں اس واقعہ کا مختصر سا قانونی پہلو ہے لیکن پاکستان میں اس کو جو قانونی رنگ دیا جارہا  ہے،وہ معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید پیچیدہ وانتقامی رنگ دے رہا ہے،پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص عمران خان ،شیخ رشید اور دیگر صف اول کی قیادت کے خلاف ملک بھر میں ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں۔معاملے کو توہین مسجد نبویﷺ کے ساتھ ساتھ توہین رسالت ﷺپر مامور کیا جارہا ہے اور دانستہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا جائے اور بعینہ ماضی کی طرح کسی ممتاز قادری کو انتہائی اقدام پر اکسایا جائے، دوسری طرف پی ٹی آئی نے اس معاملے کی مذمت اور خود کو اس سے الگ رکھنے کا اعلان کرنے میں بہرطور معمولی تاخیر ضرور کی ہے۔

موجودہ حکومت اس وقت شدید بحرانوں میں گھری ہوئی ہے اور اس کے لیے انتہائی مشکل ہو رہا ہے کہ کیسے معاملات کو سنبھالا جائے،لہٰذا ان کےلیے یہ واقعہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اور حکومت اپنی پوری کوشش کرے گی کہ اس سے ایسے فائدہ اٹھائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرکیف یہ تو وقت بتائے گا کہ کیا واقعی حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں کہ پاکستان میں ماضی میں روایت رہی ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات کو ابھار کر کسی بھی شخص کو ہجوم کے ذریعے سزا دلوا دی جاتی ہے اور بعد ازاں ایک قیمتی جان جانے کے بعد،مجرم کو بھی تختہ دارپر لٹکا دیا جاتا ہے۔نجانے کیوں قانون نافذ کرنے والے ادارے اورپاکستانی حکومتیں اپنے اختیارات از خود عوام کو کیوں دے دیتے ہیں؟

دوسری طرف سعودی عرب میں سب کو علم ہے کہ یہ خلاف قانون حرکت ہو رہی ہے لیکن کسی عام شہری کی مجال نہیں کہ وہ ازخود ایسے کسی ملزم کو سزا دے بلکہ دنیا کے کسی بھی دوسرے مہذب ملک میں اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔اس کی بنیادی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کو اپنے اداروں کی ساخت،کارکردگی اور غیر جانبداری پر بھرپور اعتماد ہے لہٰذا وہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرأت نہیں کرتے۔

اس واقعہ میں بھی پس پردہ یہی حقائق کار فرما رہے ہیں کہ کل تک جن کو پاکستانی ادارے،چور اور کرپٹ گردانتے رہے،سیاسی و ذاتی مفادات کی آڑ میں انہی لوگوں کو تخت پر براجمان کرا دیا،عام پاکستانی شہری کے لیے یہ کس قدر تکلیف دہ بلکہ مایوس کن ہے،اسی کا اظہار مسجد نبویﷺ میں ہوا، جس کو کسی بھی صورت قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بعد ازاں جو کارروائی اس وقت حکومت کر رہی ہے ،جس طرح ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں،جس طرح مذہب کے نام پر عوام کو مشتعل کیا جارہا ہے،عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کی دعوت دی جارہی ہے،کہ کسی طرح پی ٹی آئی کا کانٹا پاکستانی سیاست سے نکلے اور باریوں کی صورت حصول اقتدار کی راہ ہموار ہو جائے،گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے،کے خواہشمند بھول رہے ہیں کہ اس طرح وہ ملک کو کس اندھیری سمت میں دھکیل رہے ہیں۔ان کے نزدیک بس اپنا اقتدار قائم رہے خواہ اس میں ملک کا ستیاناس ہو جائے، لیکن بھول رہے ہیں کہ اگر نعوذ باللہ ملک ہی نہ رہا تو پھر کہاں کا اقتدار؟پھر وہی ہو گا جو پڑوسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اب اس کے مذہبی پہلو پر اپنی کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے کچھ گذارشات ضرور کروں گا اور یہ بھی امید رکھوں گا کہ مجھ پر تبریٰ بھیجنے کی بجائے عالم و دانشور اس پر میری رہنمائی و تصحیح فرمائیں گے۔ سورۃ  حجرات کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ رب العزت نے واضح فرما دیا کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے محبوبﷺکے روبرو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو مبادا تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں،یہاں دو باتیں واضح ہیں کہ اللہ رب العزت ان سے مخاطب ہیں کہ جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے اور محبوب خداﷺکے صحابہؓبن چکے تھے،آپﷺ کی ہر بات پر سر تسلیم خم رکھتے تھے،لیکن پھر بھی انجانے کبھی ان کی آواز محبوب خداﷺ سے اونچی ہو جاتی اور یوں بے ادبی کا سبب بنتی۔دوسری طرف گستاخ رسولﷺکے متعلق سزا کا پیمانہ قطعی مختلف ہے لیکن اس کے لیے بھی

 طریقہ کار اور سزا دینے کا اختیار ذمہ داران کاہے ،کسی بپھرے ہوئے ہجوم کا قطعی نہیں۔ اس کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ قارئین بے ادبی اور گستاخی کو سمجھ سکیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوبﷺکے روبرو اونچی آواز کو بے ادبی قرار دیتے ہوئے ،بے ادبوں کی سزا ان کے اعمال ضائع کرنے پر اکتفا کیا ہے اور اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے جبکہ گستاخ رسولؐ تو فوراً ہی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تا آنکہ وہ توبہ نہ کرلے۔ اب جس بے ادبی پر سزا کی حد رب نے خود مقرر کر دی ہے،اس پر سعودی حکومت نے بھی جرم کے مطابق ہی سزا دی ہے،جبکہ ماضی میں ہونے والی ایسی نعرے بازی کا میں حوالہ نہیں دینا چاہتاکہ نواز شریف،راحیل شریف،عمران خان اور زرداری کے حوالے سے بھی ایسی نعرہ زنی ہوتی رہی ہے اور موجودہ جگہ کی نسبت روضہ رسولﷺکے زیادہ قریب اور مسجد کے احاطہ کے اندر ہوتی رہی ہے،لیکن تب مؤقف مختلف رہا ہے۔ بہرکیف ہمارا بالعموم یہ رویہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو،اس وقت بھی یہی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح بے ادبی ،جس کی سزا از خود اللہ کی طرف سے دی جاتی ہے،کو گستاخی بنا کر عوام کے جذبات کو انگیخت کیا جائے اور اپنے سیاسی مخالف سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے،میرے نزدیک یہ عمل بذات خود تعلیمات رسولﷺ ،اسلام کے اصولوں کی بے ادبی و بے حرمتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button