CM RizwanColumn

قانون کی بالادستی! ۔۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

ہر مہذب معاشرہ اپنے لیے کچھ اصول طے کرتا ہے ان اصولوں میں سرِ فہرست قانون کی بالا دستی ہے۔ اقوام عالم کے بڑے ممالک اپنی فلاح اور ترقی کا راز قانون کی اسی بالادستی کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی یہ سفر شاید شروع ہی نہیں ہوا۔اپنی مختصر تاریخ میں سیاسی بحرانوں کی لپیٹ میں رہنے والے ملک میں آج بھی قانون کی بالا دستی اداروں کی حدود اور گورننس جیسے موضوعات پر ہر طرح کا ابہام موجود ہے۔ آئین میں ان موضوعات کی تشریح موجود ہے مگر جتنے تجربات کا شکار خود آئین رہا ہے شاید آج پایا جانے والا عمومی ابہام اسی وجہ سے ہے۔

جب قانون کی بالا دستی کا ذکر ہوتا ہے تو صرف پولیس، کچہری، سی ٹی ڈی یا سرکاری دفاتر کا رویہ یا ان محکموں کی طرف سے روا رکھے جانے والی تفاوت ہی قانون کی بالادستی کا موضوع نہیں ہوتی کیونکہ یہ صرف آئین وقانون کی بالادستی اور سپر میسی کے حوالے سے محض ایک پہلو ہے۔ دراصل قانون کی بالادستی ایک سوچ ہے جس کو ریاست اصول کے طور پر اپناتی ہے اور خود سے جڑے ہر شخص کو برابر کے حقوق دیتی ہے اوربرابری کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے اداروں کو ذمہ داریاں تفویض کرتی ہے۔ ادارے ان ذمہ داریوں کو عدل و انصاف کے مطابق پورا کرنے کو یقینی بناتے ہیں۔ برابر کے یہ تمام حقوق برابری کی بنیاد پرچاہے وہ وسائل میں برابر کے حصے طے کرنے اور تقسیم کرنے سے متعلق ہوں، امارت اور غربت کی لکیر کو مٹانے سے متعلق ہوں، صحت، تعلیم اور انصاف کی یکساں فراہمی کے حوالے سے ہوں، بات کہنے کی یکساں آزادی اور بات سنے جانے کے یکساں مواقع جیسے ان بنیادی حقوق سے متعلق ہوں جو دنیا بھر میں تمام ترقی یافتہ ممالک میں تسلیم کئے جاتے ہیں برابری کی بنیاد پر تسلیم اور تقسیم کئے جانے ہیں۔ اگر تفصیل اور گہرائی سے ان بنیادی آزادیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ شہری اور ریاست کا رشتہ ان آزادیوں کا احترام اور بنیادی حقوق کا تحفظ قرار پاتا ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں جن بنیادی آزادیوں کا ذکر ہے وہ قریباً تمام کی تمام ہی پاکستان کے آئین میں تسلیم شدہ ہیں۔ ان بنیادی انسانی حقوق میں سیاسی حقوق بھی شامل ہیں۔ ہر شہری اپنے نظریے میں آزاد ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کر سکتا ہے۔ ان ہی بنیادی حقوق کے تحت آئین ہر ملزم کو قانونی چارہ جوئی کا حق دیتا ہے۔ چاہے اس ہر قتل جیسا سنگین الزام ہو یا ریاست کے خلاف بغاوت جیسا قابل صد نفرین الزام ہی کیوں نہ ہو۔ ریاست ہر شہری کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کر غلط ثابت کرنے کے لیے وکالت اور عدالت جیسی سہولیات سے استفادہ کرے جبکہ ان الزامات کے صحیح ثابت ہونے پر قانون کے مطابق سزا بھگتے۔

پاکستان میں پچھلے ادوار حکومت میں تین دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ نے غیر معمولی صورتحال پیدا کی ہوئی تھی۔ ان حالات میں
آئین وقانون سے ہٹ کر قانون سازی کی گئی۔ حالانکہ آئین یہ کہتا ہے کہ حالات جتنے بھی مخدوش ہوں، ہیجانی صورتحال عروج پر ہو یا رکھی گئی ہو۔ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی  قوانین کا سہارا نہیں لیا جاسکتا لیکن جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ان حالات میں ماضی میں یہ سہارا لیا گیا اور چونکہ یہ سہارا تمام سٹیک ہولڈرز اور قانون ساز اداروں کی مشاورت سے لیا گیا تھا اس کے بعد مطلوبہ نتائج بھی برآمد ہوئے اور ملکی اجتماعی آئینی وقانونی روح بھی متاثر نہ ہوئی اس کے باوجود یہ سہارا معذوری بننے لگا تو پھر انصاف کے متوازی نظام کے عارضی سہاروں سے کنارہ کش ہو کر عدلیہ کے حقیقی نظام پر بھروسے اور اکتفا کی پالیسی اپنا لی گئی۔ اسی بھروسے اور اعتماد کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہماری عدلیہ نے پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے دامن پر لگے نظریہ ضرورت کے داغ کو اس طرح دھو ڈالا ہے کہ اس نے قومی اسمبلی میں سپیکر کی ایک حالیہ غیر آئینی رولنگ کو ڈنکے کی چوٹ پر غیر آئینی قرار دے کر قومی اسمبلی میں اکثریت کی حامل جماعتوں کو حکومت بنانے کا اصولی حق تفویض کیا ہے۔ سابقہ دور حکومت میں ساہیوال میں قتل کیے جانے والے خاندان کے مرنے کے بعد حکومت کی طرف سے اعلان کیے گئے دو کروڑ روپے کا پسماندہ خاندان کیا کرسکتا تھا جبکہ اسے انصاف ہی نہ مل سکا جبکہ مقتول خاندان کے پاس یہ حق تھا کہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جاتا اور ان پر عائد الزامات اگر سچ ثابت ہوتے تو پھر وارثان کو یہ حق دیا جاتا کہ وہ اپنے مقتولوں کی دیت وصول کرلیں یا پھر انہیں قانون کے مطابق سزائیں دلوانے کی درخواست کریں۔

ہمارے معاشرے میں سزا پہلے دینا اور پھر الزامات ثابت کرنے یا نہ کرنے کی اس قدر قبیح رسم پڑ گئی ہے کہ لفظ انصاف کی اس سے زیادہ توہین اور نہیں ہو سکتی۔ آئین ریاستی اداروں کو من حیث المجموعی اور ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کی طرف سے کیے گئے ایسے کسی غیر قانونی کام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا استثنیٰ نہیں فراہم کرتا۔ مگر افسوس کہ سابقہ دور میں محض الزامات کی بنیاد پر ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک لوگوں کو زیر حراست بھی رکھا گیا۔ ان کی بھرپور اور انتہائی گھٹیا طریقہ سے کردار کشی بھی کی گئی اور پھر اب جبکہ وہ الزامات سچ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں ان کو اب بھی ان کے مخالفین منشیات فروشی کا الزام دے رہے ہیں۔ اس کی زندہ اور تازہ مثال موجودہ وفاقی وزیر داخلہ ہیں اور ان کی بے بسی اور مجبوری کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ ان پر جھوٹے الزامات لگائے والے نہ صرف اب بھی آزاد پھر رہے ہیں بلکہ ماضی کی طرح آج بھی انہیں منشیات فروش کے القاب سے نواز رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عدالتیں جھوٹا الزام لگانے اور الزام ثابت نہ کرنے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی؟۔

آئین اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ریاست اور حکمرانی کا تصور نظام عدل کو قائم کیے بغیر ناممکن ہے۔ اپنے کسی فعل کے لیے توجیہ پیش کرنا بھی ہر فرد کا قانونی حق ہے مگر ریاستی اداروں کو اپنے رد عمل ریاست کے مفادات کو سامنے رکھ کر ترتیب دینے چاہئیں۔ حکومت وقت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سکیورٹی اور احتساب کے ادارے اسی معاشرے کے افراد پر مبنی ہیں ان افراد میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت شاید ذرا زیادہ ہو مگر انہیں کامل سمجھنا یا کامل کے طورپر پیش کرنا انصاف کے لولے لنگڑے نظام کی خدمت نہیں ہے۔ کسی ایک واقعے پر سوال اٹھا کر اداروں اور ان کے سربراہان پر سوال اٹھانے جیسا جرم کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کے تشخص کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر بے جا الزامات اور تنقید کا تدارک کرے۔ اس میں کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے کہ قوم نہ صرف عسکری اداروں کی قربانیوں پر فخر کرتی ہے بلکہ اس قوم نے استطاعت سے زیادہ ہمیشہ ان قربانیوں میں حصہ ڈالا ہے۔ آج ان قربانیوں اور احترام کا تقدس چند نادان لاڈلے کیوں پامال کر رہے ہیں۔ آج اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ اگر کسی سے ماضی قریب یا بعید میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کو مان لینے اور آئندہ کے لیے پیش بندی کا کوئی انتظام ہونا ضروری ہے۔ ریاست ہم سب کو سوال کرنے کی اجازت دیتی ہے اور ریاست سب اداروں کو جواب دہی کا پابند کرتی ہے۔ ریاست قانون کا تحفظ کرنے والوں کو بھی قانون کے دائرے میں رہنے پر پابند کرتی ہے۔ آئین پر عملدرآمد محض آرٹیکل چھ کی بات نہیں۔ آئین جو ذمہ داریاں ہر ادارے کے لیے طے کرتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کو نہ ماننے والے صرف وہ نہیں جو ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ ملک کے خلاف سازش کرنا ممکن نظر آئے۔ آج نظر آرہا ہے کہ کون سی سیاسی طاقتیں ملک کو انارکی کی طرف لے کر جارہی ہیں۔ ان سے لاڈ پیار کو مزید نہ بڑھایا جائے ورنہ آج اگر ایک صوبے کا گورنر ایک صوبیدار اور چار فوجی مانگ رہا ہے تو کل کلاں صدر پاکستان بھی اس سے بڑا اور غیر آئینی مطالبہ کر سکتا ہے پھر فوجی حکام کیا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button