Ali HassanColumn

توشہ خانہ یا نوشہ خانہ … علی حسن

علی حسن
ایک بحث جاری ہے کہ توشہ خانہ میں کیاکیا ہے اور کس کس حکمران کو کیا کیا تحائف ملے تھے یا ملے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو فہرست جاری کرنے کا کہہ دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیئے کہ جو لوگ تحائف اپنے گھر لے گئے ہیں، ان سے بھی واپس لیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق وزیراعظم کے توشہ خانہ سے حاصل تحائف کی تفصیل بتانے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کی اور عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں، وزیراعظم آفس وہیں رہتا ہے، جو بھی تحفہ دیا جاتا ہے وہ اس آفس کا ہوتا ہے، گھر لے جانے کے لیے نہیں ہوتا۔انفارمیشن کمیشن نے وزیراعظم کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات شہری کو فراہم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر کابینہ ڈویژن نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکاس ہوتا ہے، تحائف کی تفصیل بتانے سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔کابینہ ڈویژن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ تحائف کی معلومات فراہم کی جائیں اس طرح تو دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے اور اب جب تحائف کی فروخت کا معاملہ سامنے آیا گیا ہے توکیا عزت رہ جائے گی؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ایک حد تک پیسے دے کر تحفہ رکھ لینا کوئی بات نہیں ہے، ایک پالیسی بنائیں کہ جو تحفہ آئے گا وہ صرف خزانے میں جمع ہوگا۔عدالت نے کہا کہ تحائف صرف ملتے ہی نہیں، عوام کے ٹیکس سے بیرون ممالک سربراہان کو بھی بھجوائے جاتے ہیں، باہر سے آئے سب تحائف عوامی جگہ پر رکھنے چاہئیں۔جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی ہونی ہی نہیں چاہیے تھی کہ کچھ فیصد رقم دے کر تحفہ گھر لے جائیں، ایسی پالیسی بنانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ تحفوں کی سیل لگا رکھی ہے ۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ہدایات لیں لیکن تب تک انفارمیشن کمیشن کے حکم پر عمل کریں، انفارمیشن کمیشن نے تحائف کی معلومات شہری کو دینے کا کہا تو فراہم کریں۔
یہ سرکاری توشہ خانہ ہے کوئی نوشہ خانہ نہیں کہ جس حکمران کے جی میں آیا کہ وہ سرکاری دورے اور سرکاری خرچ پر کئے گئے غیر ملکی دوروں کے دوران جو تحائف حاصل ہوئے تھے، اپنی مرضی کی قیمت لگاکر گھر لئے جائیں ۔ عمران خان نے کسی طور پر یہ درست نہیں کیا تھا۔ انہوں نے تحائف کو مبینہ طور پر بازار میں فروخت کر کے ملک کی بدنامی کا سامان پیدا کیا۔ نواز شریف اور دیگر حکمرانوں نے انہیں ملنے والے تحائف خرید لیے تھے۔ ایساکیوں نہیں ہو سکتا تھا کہ فہرست جاری کی جاتی اور ملک میں ہی ان تحائف کا نیلام عام کیا جاتا اور جو پیسہ ملتا وہ کسی بہتر کام میں خرچ کیا جاتا اور اب بھی کیوں نہیں ہو سکتا کہ گزشتہ تیس سالوں میںکیا کیا تحفے ملے تھے۔ سوشل میڈیا پر ایک فہرست گشت کر رہی ہے۔اس کے مطابق1997 میں نواز شریف
ترکمانستانی حکومت کا دیا ہوا قالین صرف 50 روپے اور قطر کے ولی عہد کا دیا ہوا بریف کیس 875 روپے دیکر گھر لے گئے۔ 1999 سعودی عرب سے ملنے والی 45 لاکھ کی مر سٹڈیز میاں صاحب 6 لاکھ میں لےگئے ، سعودی حکومت کی دی رائفل جو 1لاکھ سے اوپر کی تھی، میاں صاحب 14ہزار میں گھر لے گئے۔ ابو ظہبی کے حکمران کی طرف سے نواز شریف، مریم نواز اور بیگم کلثوم نواز مرحومہ کو3گھڑیاں تحفے میں دی گئیں 2 گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئیں جبکہ ایک گڑھی مریم نواز نے 45 ہزار میں نکلوالی اس گھڑی کی قیمت 1999 میں 10 لاکھ سے زیادہ تھی ۔ سابق امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیز 26کروڑ کے تحفوں کی قیمت 7 کروڑ لگوا کر ڈھائی کروڑمیں گھر لے گئے ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی 2011میں سعودی حکومت سے ملنے والے20 لاکھ سے اوپرکے تحائف گھڑی، کف لنک صرف 2 لاکھ 83 ہزار میں گھر لے گئ ۔ان کی اہلیہ 30لاکھ کا جیولری سیٹ 3 لاکھ میں گھر لے گئیں۔
2009 میں سابق صدر آصف علی زرداری کو لیبیا کے صدر معمر قزافی نے3کروڑ مالیت کی مرسٹڈیز گاڑی گفٹ کی، زرداری صاحب 21 لاکھ میں یہ مرسٹڈیز گاڑی لے اڑے۔ 2009 میں متحدہ عرب امارات کے حکمران نے زردادی صاحب کو12 کروڑ مالیت کی لکسیز گاڑی گفٹ کی وہ یہ بیش قیمت گاڑی صرف 32 لاکھ روپے میں لے گئے۔ پرویز مشرف 4 کروڑ کے تحفے 36 لاکھ میں گھر لے گئے ان میں 2 پستول بھی تھے جو امریکی وزیر دفاع رمیز فلیڈ نے مشرف کو گفٹ کیے ، صرف 19 ہزارمیں مشرف صاحب وہ پستول لے گئے ۔ انہوں نے ایک پستول امیر مقام کو گفٹ کیا تھا۔
ریاست کے ساتھ اس سے زیادہ بد دیانتی کیا ہوگی کہ ملک کو ملنے والے تحائف حکمران لیتے آرہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے درست کہا ہے کہ واپس منگایا جائے۔ تحائف کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے دورمیں ایک مرتبہ مصر میں متعین گورنر کو طلب کر لیا۔ خلیفہ کو اطلاع ملی تھی کہ گورنر صاحب تحفے اور تحائف وصول کرنے میں کھلے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ خلیفہ وقت کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو یہ تحائف لوگ کیوں دیتے ہیں۔ ان کے جواب سے پہلے انہیں کہا گیا کہ اس لیے آپ گورنر ہیں۔ ان کی گورنری ختم کر دی گئی اور انہیں بکریاں چرانے پر لگا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں خلیفہ نے دوبارہ طلب کیا اور سوال کیا کہ کیا لوگ ابھی بھی انہیں تحائف دیتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ نہیں۔ انہیں کہا گیا کہ یہ تحائف آپ کو گورنر کی حیثیت سے دیئے جاتے تھے۔ جماعت اسلامی کے ایک سابق امیر سید منور حسن مرحوم سے منصوب واقعہ بھی قابل غور ہے۔ آپ کی صاحبزادی کی شادی ہوئی۔ جب شادی کی ساری مصروفیات ختم ہو گئیں تو مرحوم سید صاحب نے صاحبزادی سے کہا کہ وہ ہار جو انہیں تحفہ میں ملا ہے وہ امیر جماعت اسلامی کی بیٹی کو ملا ہے، اس لئے یہ تحفہ جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرادیا جائے۔اللہ تعالی کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، سید صاحب کا تقویٰ بلا کا تھا اورہمیشہ لرزشوں سے محفوظ رہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ نے آپس کے اختلافات کے باوجود حلف اٹھالیاہے۔حلف اٹھانے والے کئی افرادبیک وقت مختلف مقدمات اور معالات پر عدالتوں سے ضمانت ہیں۔ خود شہباز شریف چالیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزام میں کارروائی بھگت رہے ہیں۔ ابھی ان کا اس معاملہ میں قومی احتساب بیورو کے سامنے پیش ہونا باقی ہے۔ وفاقی کابینہ میں شامل کیسز زدہ وفاقی وزراء کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف پر آمدن سے زیادہ اثاثوں کا کیس میں ضمانت پرہیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس میں کمیشن۔ وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ منشیات کیس۔وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ۔جاوید لطیف بھی ایک کیس میں ضمانت پر ہیں۔ سید خورشید شاہ آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کیس میں ضمانت پر ہیں۔ وفاقی وزیرعبدالقادرپٹیل دہشتگردوں کے علاج معالجے کیس میں ضمانت پر ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل ایل این جی درآمدت کیس میں نامزد اور ان دنوں ضمانت پر ہیں۔ کیا یہ بہت ہی اچھا نہیں ہوتا کہ ان افراد کو سر دست کابینہ میں شامل کیا جاتا جن کی سلیٹ صاف ہے۔ اتنی بڑی سیاسی جماعتوں میں اور بھی تو لوگ ہیں۔ انہیں کیوں نہیں ترجیح دی گئی۔
نئی وفاقی کابینہ پر طنز کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے سماجی رابطوں ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا ہے کہ چوں چوں کا مربع کابینہ کا نام پڑھیں لگتا ہے سنٹرل جیل کا حاضری رجسٹر ہے اور پھر کاش ایسا نہ ہوا ہوتا کہ والد وزیر اعظم اور صاحبزادے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے جاتے۔ ایسا نہ ہوا ہوتا کہ والد اورصاحبزادے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ خاندانی جمہوریت ہے ، کیا کہا جائے۔ ذرا نظریں دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کو خاندانی سیاست کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ خاندان کے خاندان سیاست میں ہیں۔ کیونکر انصاف ہوگا، کیونکر ایمانداری قائم رہے گی۔ عمران خان کابینہ کے سابق وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کا کہنا ہے کہ شریف فیملی اپنے گھر سے باہر کوئی عہدہ دینا نہیں چاہتی اور ان کی ہمدردی شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہے، ایک شاہد خاقان ہی کیا، نون لیگ اور پی پی میں بہت سارے شاہد خاقان موجود ہیں جن سے ہمدردی کی جانی چا ہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button