Column

غیرت فروشی ….. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

دنیا کی کوئی خوددارقوم اور غیرت مند حکمران کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتے کہ کوئی بیرونی طاقت ان کے ہاں مداخلت کرے،ان کی خارجہ پالیسی کو روند ڈالے اور ان کے وسائل پر کسی بہانے کوئی دیارِ غیرسے آکر قبضہ جمائے اور ان کی صنعت و حرفت اور خوشحالی کو افلاس میں بدل دے۔غیرت مند حکمران اور قومیںمرنا اور مٹنا تو پسندکرتے ہیںمگر جھکنا کسی صورت انہیں پسند نہیں۔ بیرونی طاقتیں جب بھی کسی ملک پر یلغار کرتی ہیں تو سب سے پہلے انہیں ملک میں بسنے والوں میں چند ایسے کرداروں کی ضرورت پیش آتی ہے جو اس ملک میں کسی نہ کسی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور ہمارے ملک میں موجود بعض کردار جانے انجانے میں ریاست کی غیرت اور حمیت کا جنازہ اٹھائے اندھے کنویں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

مسلمانوں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ ہے کہ ہم غیروں کے مارنے سے کبھی نہیں مرتے بلکہ اپنے ہی میر صادقوں اور میر جعفروں کے ہاتھوںمارے جاتے ہیں۔ تاریخ اپنے دامن میں وفا اور بے وفائی، خدمت اور دھوکہ دہی کی ہر قسم کی علامتیں محفوظ رکھتی ہے لیکن بعض کردار ایسا فیصلہ کن وار کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے شرمناک علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال ہماری تاریخ کے ان دو کرداروں کا ہے جن کے بارے میں ہماری نوجوان نسل کو ہمیشہ یاد رکھناچاہیے۔ اسی وجہ سے مجھے خیال آیا ان دو ڈھائی صدی پرانی علامتوں کے کردار کی تھوڑی سی وضاحت بھی ضروری ہے اور یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو قومی مفاد کو روندتا، قومی رازوں کو فروخت کرتا، قومی خزانے کو لوٹتا اور ملک و قوم سے بے وفائی کرتا ہے وہ اپنی اپنی جگہ پر میر صادق اور میر جعفر ہی ہے ۔ میں جب بھی اپنی سترھویں اٹھارھویں صدی کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دو تاریخی کرداروں نے اپنی قومی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ اسی لیے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے والے کرداروں کو بھی میرصادق و جعفر سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ بنگال کو اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں 1592ء میں مغلیہ سلطنت کا حصہ بنایا گیا تھا۔ مغلیہ سلطنت کمزور ہوئی تو کئی صوبے آزاد ہو گئے جن میں بنگال بھی شامل تھا۔

سراج الدولہ چوبیس برس کی عمر میں اپنے دادا علی وردی خان کے انتقال کے بعد 1756ء میں بنگال کی گدی پر بیٹھا۔ اس دور میں انگریز اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے اور تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی مسلمانوں کے اقتدار میں نقب لگانے میں مصروف تھی۔اول تو انگریزوں نے نواب کی منظوری کے بغیر اپنے تجارتی مراکز کے اردگرد حصار بنا لیے تھے، دوم وہ سراج الدولہ کے مخالفوں کی حمایت کر رہے تھے اور سوم انہوں نے تجارتی مراعات سے ناجائز فائدے اٹھانا شروع کر دیئے تھے جن کے سبب نواب نے حملہ کر کے کلکتہ پر قبضہ کیا۔ کلائیو نے حملہ کر کے کلکتہ تو واپس لے لیا اور نواب سراج الدولہ سے معاہدہ بھی کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی انگریزوں نے سراج الدولہ سے نجات حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اس قسم کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انگریز ہمیشہ سازش کا سہارا لیتے تھے اور دشمن کے اہم کارندوں کو رشوت یا اقتدار کا لالچ دے کر خرید لیتے تھے۔ نواب سراج الدولہ کا سب سے بڑا قابل اعتماد میرجعفر تھا جو اس کی فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا۔ انگریزوں نے اس سے ساز باز کر کے سازش کا جال پھیلا دیا اور اسے بنگال کی حکمرانی دینے کا وعدہ کر کے خفیہ معاہدہ کر لیا۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت جنگ پلاسی (1757) ہوئی۔ انگریزوں کی فوج تین ہزار پر مشتمل تھی جبکہ سراج الدولہ کے پاس پچاس ہزار کی فوج تھی۔ 23 جون 1757ء کو پلاسی کی اس جنگ کے دوران میر جعفر نے سراج الدولہ کو دغا دیا اور فوج لے کر نواب سے علیحدہ ہو گیا۔ نتیجے کے طور پر نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر بھاگ نکلا۔ میر جعفر کے بیٹے میراں نے تعاقب کر کے سراج الدولہ کو قتل کر دیا۔ یوں سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر بنگال کا حاکم بن گیا لیکن عملی طور پر اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدے میں بری طرح جکڑ دیا گیا اور انگریز غالب آ چکے تھے۔ مختصر یہ کہ جنگ پلاسی کے بعد عملاً بنگال کے علاقے میں مسلمانوں کے عروج و اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔

دوسرا تاریخی کردار جو ایک ملامتی علامت بن چکا ہے وہ ہے میر صادق جو ٹیپو سلطان کی مجلس کا صدرِ اعظم تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نہ ہی صرف بہادر، عبادت گزار اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی آخری نشانی اور روشن چراغ سمجھا جاتا تھا کیونکہ مغل حکمران جنگ بلکسر میں شکست کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بن چکے تھے۔ ٹیپو کو فرانسیسیوں کی حمایت حاصل تھی اور وہ انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ مکمل جنگی تیاریوں اور سازشوں کا جال پھیلانے کے بعد انگریزوں نے جنرل ہیرس کی سربراہی میں میسور پر حملہ کر دیا۔ جنرل ہیرس نے مارچ 1799ء میں میسور اور پھر بنگلور پر قبضہ کر لیا۔ اس کی فوج میں ساٹھ ہزار بیل اور بہت سے ہاتھی تھے۔ ٹیپو سلطان کو صلح کے لیے شرمناک شرائط پیش کی گئیں جو اس نے مسترد کر دیں۔ اپریل کے اواخر میں سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر انگریزوں نے توپیں نصب کر دیں اور گولہ باری شروع کر دی۔ تین مئی کو قلعے کی فصیل میں چھوٹا شگاف پڑ گیا۔ 4 مئی کو میرصادق کے مشورے پر انگریزوں نے حملہ کیا اور میرصادق نے تنخواہیں دینے کے بہانے ان سپاہیوں کو بلا لیا جو فصیل کے اس شگاف کی حفاظت پر مامور تھے چنانچہ انگریز فوج قلعے میں داخل ہو گئی۔ جب ٹیپو سلطان کو خبر ملی تو وہ پا پیادہ دوڑے اور منتشر فوج کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب سپاہی اپنی قوت کھو بیٹھے تو ٹیپو سلطان گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کے ایک دروازے کی طرف بڑھے۔ میر صادق نے وہ دروازہ بند کروا دیا تھا تاکہ ٹیپو سلطان باہر نہ جا سکیں۔ ٹیپو سلطان کے وفاداروں نے میرصادق کی غداری کو بھانپتے ہوئے اسے قتل کر دیا اور ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس سازش میںمیر صادق اکیلا نہیں تھابلکہ اس کے ساتھ اس سازش میں میر غلام علی، میر قمرالدین، میر قاسم علی اور ہندو وزیر مالیات پورنیا بھی شامل تھا۔ یوں ٹیپو سلطان شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے کہہ کر شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو گیا اور میر صادق عبرت کی علامت بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔

زمانہ بدل چکا،مگر ہمارے ہاں آج بھی میر جعفر و میر صادق موجودہیں جو ملکی مفادات کا سودا کرتے ہیں، قومی راز بیچتے ہیں، خزانہ لوٹ کر ملک کو نقصان پہنچاتے ہیںاور اقتدار کے لالچ میں قوم سے بے وفائی کرتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کرے جو غیرت فروشی کا بازار سجائے ہوئے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button