Column

پیاس کے مارے بنجر مقدر ….. احمد نوید

احمد نوید

بلوچستان ملک کا غریب ترین صوبہ ہے ۔ پنجاب میں راجن پور اور سند ھ میں بدین غریب ترین اضلاع ہیں ، مگر محرومیوں او ر نہایت کم سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے سندھ کا علاقہ تھرپار کر یقینی طور پر پاکستان کا بدقسمت ترین علاقہ ہے ۔ سندھ کے 29اضلاع میں تھرپار کر سب سے بڑا ضلع ہے ۔ اس کا دارالحکومت مٹھی ہے ۔ تھرپار کی آبادی قریباً سولہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہ صحرائی علاقہ ہندوستان میں راجستھان تک پھیلا ہوا ہے ۔

اگر مصائب کا چہرہ ہوتا تو وہ یقینا تھرپار کر کے لوگوں کی زندگی ہوتی ۔ اس علاقے میں اگر انسان گھوم پھر کر دیکھے تو گمان ہونے لگے گا کہ شاید ہم افریقہ کے کسی نہایت پسماندہ ترین علاقے میں ہیں ۔ یہاںقریباً سدا ہی قحط جیسی صورت حال رہتی ہے ۔ ماضی سے قطع نظر گذشتہ چند سالوں میں ہی کئی ہزار بچے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔ یہ انسانی بنیادی ضروریات ہیں مگر تھرپار کر کے لوگ آسائشی سہولیات تو درکنار ان بنیادی ضرورتوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
تھرپار کر کی عورتوں کے دن کا آغاز آج بھی پانی کے گھڑے اُٹھانے سے ہوتا ہے ۔ آج کے جدید دور میں بھی یہ خواتین شدید سردی یا گرمی میں کم از کم تین سے چار کلو میٹر پیدل چل کر بارش کے پانی یا چھوٹے قدرتی ٹینکوں سے پانی بھرتی ہیں ۔ یہ وہ آلودہ ، نمکین یا غیر ٹریٹمنٹ شدہ زیر زمین پانی ہے ، جس کے مسلسل استعمال سے یہاں کے لوگ ، گردے میں پتھری ، تھائیرائیڈ ، دانتوں کے فلو روس ، جوڑوں کی خرابی ، وبائی امراض اور دیگر متعدد بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی وہاں کئی عشروں سے قائم حکومت نے بھی تھرپار کی قسمت نہیں بدلی۔ یہاں کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے وقعتاً فوقعتاکئی منصوبوں اور سکیموں کا اعلان کیا گیا ، لیکن کوئی بھی ٹھوس منصوبہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ سندھ حکومت نے 2015میں تین کروڑ ڈالر سے زائد مالیت سے تھرپار کر میں 750ریورس اوسموس (آر او ) واٹر پیور یفیکیشن پلانٹس لگانے تھے جن میں سے بمشکل 400لگے اور اُن میں سے بھی ستر فیصد دوبارہ خراب ہوچکے ہیں۔

سرحد کے اُس پار بھارت کے راجستھان کے صحرائی علاقے میں 650کلو میٹر طویل اندرا گاندھی کینال سے وہاں کے لوگوں کوپانی فراہم کیا جارہا ہے ۔ یہ نہر بھارتی ریاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے ۔ ایسی ہی بہت بڑی نہر کی تھرپار کر کے لوگوں کو بھی ضرورت ہے ۔ مگر ہمارے ہاں مافیا، وڈیرے اور سیاستدان بہت مضبوط ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات حکومتوں کو بھی اُن کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں خشک سالی ، قحط اور بالآخر طویل پیاس کے بعد موت منتظر ہوتی ہے ۔ تھرپار کر میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں ، ریت کے ٹیلے اور بنجر علاقہ ۔ درحقیقت یہ علاقہ بنجر نہیں ہے یہاں کے غریب لوگوں کے مقدر بنجر ہیں ۔

2012سے مسلسل بارشوں کی شدید کمی سے جہاں تھرپارکر کے غریب لوگ خشک سالی کا شکار ہیں وہاں لوگوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی پانی اور خوراک کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تھرپار کر پر اقوام متحدہ کا مشاہداتی مشن 2017میں اس علاقے کو بحران زدہ علاقہ قرار دے چکا ہے ۔ جبکہ اس سے ایک سال قبل 2016میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2014سے 2016کے درمیان تھرپارکر میں 1380بچے غذائی قلت سے ہلاک ہونے اور اس رپورٹ کا سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ تھرپار میں 76فیصد آبادی کے پاس گھروں میں خوراک کا سامان ہی نہیں تھا۔

پی پی پی کتنی ہی بار برسراقتدار آنے کے باوجود سندھ اور خاص طور پر تھرپارکر جیسے دیہی علاقوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ابھی تک ان علاقوں کی ترقی اور یہاں کے لوگوں کو اذلی محرومیوں سے نکالنے کے لیے کوئی بھی خاطر خواہ منصوبہ لانے میں ناکام رہی ہے ۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ کی حکومت اِن مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف سنجیدگی دکھاتی بلکہ وہ اس علاقے کو چیلنج کے طور پر لیتی اور اس علاقے کی محرومیوں کا مستقل حل تلاش کیا جاتا ۔ مسلسل سانحات کے شکار اس علاقے کو تمام عدم دستیاب سہولیات فراہم کی جاتیں ۔ یہاں کے مسائل کے تدراک کے لیے رپورٹیںتیار کی جاتیں، سروے کراوائے جاتے ، کمیشن بنائے جاتے ، مگر افسوس کہ اِن اقدامات کی شدید کمی کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کی بے حسی بھی عیاں ہے ۔

آج بھی اگر تھرپار کر میں کوئی بچہ خشک سالی یا قحط سے مرتا ہے تو دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر اُٹھتی ہیں۔ یہ حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کی نیک نامی کیلئے بھی باعث شرم ہے ۔ لیکن ایسا کون سوچتا ہے ؟کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ یہ سوچے کہ تھرمیں حاملہ ماں کی زندگی کتنی مشکل اور پیچیدگیوں کا شکار ہے ؟ کسی کو کیا پڑی ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی زحمت کرے کہ تھرپار کر کے بچوں کو تعلیم کی سہولیات دستیاب بھی ہیں یا نہیں ؟

کسی پاکستانی کو یہ سوچ کر بھی پریشان ہونے کی کیاضرورت ہے کہ وہ اس بات پر وقت ضائع کرے کہ ایسا علاقہ جہاں پانی کی شدید قلت ہے تو وہاں جو دستیاب پانی ہے وہ کس معیار کا ہوگا؟کسی بہت بڑے سیاستدان ، بیوروکریٹ، جرنل، جج ، وکیل ، ڈاکٹر، کالم نگار ، اداکار ، گلوکار، میڈیا مالکان ، تاجر برادری ، یا چولہے اور بوریابستر اُٹھا کر تبلیغ پر جانے والی ٹولیوں کو بھلا کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ کچھ دن تھرپار کر میں گزارنے کا سوچیں ؟

کیا ضرورت پڑی ہے خواہ مخواہ کی فضولیات میں پڑنے کی !میڈیا بھی وہ چیزیں دکھاتا ہے جس میں عوام اور سیاستدانوں کی دلچسپی ہوتی ہے۔ تھرپارکر میں رہنے والی انسان نما مخلوق میں اُن کی محرومیوں میں ، اُن کی تکلیفوں میں ، اُن کی پریشانیوں میں ، اُن کے دکھوں میں ، کسی کیا دلچسپی ہوگی۔

دلچسپ باتیں تو یہ ہوتی ہیں کہ سیاستدانوں کی ملاقاتوں کے عشائیے میں کتنی ڈشز بنائی گئیں۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی یا کامیاب ؟

نواز شریف واپس آئیں گے یا نہیں ؟پی ایس ایل کا فاتح کون ہوگا؟ ڈالر اور سونے کا ریٹ کیا ہے آج کل؟
ہم المیوں کے جہان میں آباد ہیں، یہاں رہنے والوں کو تھرپار کر میں رہنے والے پیاس کے مارے بنجر مقدروں میں کسی کو غرض نہیں ، کوئی دلچسپی نہیں۔

وہ لوگ زندہ ہیں سانس لیتے رہتے ہیں، کیا اتنا کافی نہیں ہے اُن کے لیے !
اور کیا چاہتے ہیں وہ پاکستان سے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button