Column

ڈیرہ غازی خان کا کم سن مبشر ….. احمد نوید

احمد نوید

فروری کے پہلے ہفتے میں ڈیر ہ غازی خان کے ایک سرکاری سکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم مبشر کو جس بے دردی سے آوارہ کتوں نے کاٹا، اُس سے کہیں زیادہ بے دردی سکول انتظامیہ نے دکھائی ۔ کم سن طالب علم بے ہوش خون میں لت پت پڑا مگر سکول کے چوکیدار ، اساتذہ ، ہیڈ ماسٹر صاحب اور دیگر سٹاف کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ سکول سٹاف کو جب واقعہ کا پتہ چلا اور وہ طالب علم کو لے کر ہسپتال پہنچے تو معصوم مبشر جان کی بازی ہار چکا تھا۔ ڈیر ہ غازی خان کے کم سن مبشر کا آوارہ کتوں کی نذر ہونا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔

جنوبی ایشیا ئی ممالک میں پاکستان سینہ تان کے اُن ممالک میں کھڑا ہے ۔ جہاں کتوں کے کاٹنے کے واقعات نہ صرف بے شمار ہیں بلکہ اِن واقعات کے نتیجے میں اموات بھی اَن گنت ہوتی ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ شاید یونہی چلتا رہے گا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ تین لاکھ کتے کے کاٹنے کے واقعات کے باوجود صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت نے اِس خطرناک اور مہلک بیماری سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور مضبوط حکمت عملی تیار کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کتے کے کاٹنے کی بیماری کو عام طور پر ریبیز کہا جاتا ہے ۔ جو اِس وقت پاکستان کے ہر صوبے اور ہر شہر میں نہایت تشویش کا باعث ہے ۔ کتوں کے کاٹنے کے واقعات کے حوالے سے سندھ سب سے بدنام صوبہ ہے ۔ جہاں گذشتہ سال 2021 میں کتوں کے کاٹنے کے دو لاکھ کے لگ بھگ کیسز درج ہوئے ۔ پنجاب میں19ہزار، کے پی میں 14ہزار اور دیگر علاقوں کے واقعات ملا کر مجموعی طور پر تین لاکھ سے زیادہ کیسز درج ہوئے جبکہ اُن واقعات کی تعداد نا معلوم ہے جو درج ہی نہیں ہوئے یا متاثرہ خاندانوں کی طرف سے رپورٹ نہیں کیے گئے۔
اِس طرح کے واقعات کے حوالے سے توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں شہر یوں کی اکثریت اِس بات سے لاعلم ہے کہ کتوں اور خاص طور پر پاگل کتوں کے کاٹنے سے ریبیز کے مرض کا خطرہ ہوتا ہے ۔ ہمارے پاکستانی شہریوں کی اکثریت بھی اِس بات سے لا علم ہے کہ ریبیز کے مرض سے بچاﺅ کا صحیح علاج کیا ہے ۔ جبکہ ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر طبی عملہ بھی ریبیز کے علاج کی مہارت نہیں رکھتا اور خاص طور پر چھوٹے سرکاری ہسپتالوں اور دیہی صحت کے مراکز میں جہاں عام طور پر بروقت ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتے ، سٹاف اور عملے کے پاس کتے کے کاٹنے کے علاج کے حوالے سے مہارت کی کمی ہے ۔ جسے عام طور پر پوسٹ ایکسپوزر ٹریٹمنٹ کہا جاتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان کے کم سن طالب علم مبشر کے واقعے کا نوٹس اگر چہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب نے لیا ہے ، لیکن وزیراعلیٰ کے نوٹس لے لینے سے بات ختم نہیں ہوتی ۔ بلکہ بات اور اِن واقعات کے تدراک کے لیے حکمت عملی کا آغاز ہی یہاں سے ہونا چاہیے۔غالباً پنجاب حکومت ، دیگر صوبوں اور شاید وفاقی حکومت کے پاس بھی ملک میں موجود آوارہ اور پاگل کتوں کی تعداد کے درست اور مکمل اعداد و شمار نہیں ہیں ۔ 2019 میں سرکاری ذرائع سے جو معلومات میسر تھیں ، اُس کے مطابق پنجاب میں آوارہ کتوں کی تعداد چار لاکھ ستر ہزار کے قریب تھی۔ اگر صرف ایک صوبے میں پانچ لاکھ کے لگ بھگ کتے موجود ہیں تو پورے پاکستان میں کتوں کی تعداد کیا ہوگی۔ ہم پاکستانیوں کو ایک المیہ یہ بھی درپیش ہے کہ کتوں کے کاٹے متاثرہ مریضوں کو جب ہسپتالوں یا دیہی صحت کے مراکز میں لیجایا جاتا ہے تو وہاں وہ انجیکشن دوا یا اینٹی ریبیز ویکسین ہی موجود نہیں ہوتی جو ایسے مریضوں کے لیے فوری درکار ہوتی ہے ۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی خاندان کا قیمتی فرد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔
کتے کے کاٹنے کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے ، کیونکہ عالمی ادارہ صحت اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے ریبیز سے بچاﺅ کے لیے آوارہ کتوں کو مارنے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا اصرار ہے کہ حکومتیں آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے کتوں کی آبادی کا انتظام کریں اور اُنہیں جراثیم کش ادویات دے کر یا انجیکشن لگا کر زہریلا ہونے سے بچائیں۔ پاکستان کے لیے یہ ناممکنات میں سے ہے ۔ ایک ترقی پذیر ملک جہاں انسانوں کے لیے بھی اچھی اور مکمل صحت کی سہولیات کا فقدان ہو، وہاں لاکھوں کتوں کو کنٹرول کرنے اور اُنہیں انجیکشنز اور ادویات کی فراہمی کے لیے اضافی بجٹ کہاں سے آئے گا۔ جبکہ کچھ عالمی ، سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں جو جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں وہ ہم سے الگ وقعتاً فوقعتاً شکوہ کیے رہتی ہیں کہ پاکستان میں ہر سال 50ہزار سے زیادہ کتے سڑکوں پر مارے جاتے ہیں اور حکومت ملک کے تمام شہروں میں آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے زہر دینے کا حکم بھی دیتی رہتی ہے۔
ڈیر ہ غازی خان کا معصوم بچہ مبشر ایک المناک واقعہ کا شکار ہوا ۔ مبشر کے والدین اور خاص طور پر والد محمود شیخ صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست کی ہے کہ اُن کے معصوم بیٹے مبشر کی موت کو رائیگاں نہ جانے دیا جائے اور فی الفور ڈیرہ غازی خان کے آوارہ کتوں (جو سکولوں ، بازاروں ، رہائشی علاقوں اور حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی دندناتے پھرتے ہیں) سے شہریوں کی زندگیوں کو بچایا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مبشر کی ہلاکت پر میونسپل کارپوریشن کے چیف آفیسر ، ریسکیو 1122کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر اور سکول کے ہیڈ ماسٹر کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کچھ سرکاری ملازمین کو معطل کردینے سے ڈیر ہ غازی خان کے ہر مبشر کی زندگی محفوظ ہوگئی ہے ۔ ہرگز نہیں ! ہمیں ترکی کے ماڈل کو فالو کرنا ہوگا جہاں آوارہ کتوں کو پکڑ کر چار مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ پہلا مرحلہ ٹریپ یعنی پکڑنا، دوسرا نس بندی، تیسرا ویکسی نیٹ کرنااور چوتھا چھوڑ دینا۔ ترکی اگر اِس طریقے سے اپنے کتوں کے کاٹنے کے واقعات کو کنٹرول کر سکتا ہے تو پاکستان کو بھی اُس کے نقش قدم پر چلنا ہوگا تاکہ صرف ڈیرہ غازی خان ہی کیا بلکہ پاکستان کے کسی بھی کم سن مبشر کی زندگی آوارہ کتوں کے رحم و کرم پر نہ ہو۔
 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button