Column

بہترین دماغ ….. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد …..

ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ہمارا تعلق کس قسم کی مخلوق سے ہے؟دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی قوم ہو جواپنی بربادی پر بھی جشن مناتی ہو،سود پر رقم حاصل کرنے پر مبارکبادیں دیتی ہواور ادھار رقم ملنے پر مٹھائی بانٹتی ہو۔کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ اللہ تعالی کی عطاءکردہ تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجودپستی ہمارا مقدر کیوں بنی؟دنیا کے بہترین موسم،سب سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل آبادی،دنیا کا چھٹا بڑا زرعی ملک اوربہترین نہری نظام رکھنے کے باوجود ہمارے گھروں میں بھوک ناچ رہی ہے،نوجوان بے روزگار ہیں،جب کہ ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیںہے ۔عظیم ترین دماغ ہماری قیادت کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کا بھی سیلاب ہے۔سب کے سب ملک و قوم کے دکھ درد کا نہ صرف احساس رکھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بھاشن دینے کے ماہر بھی ہیں۔جس سے بات کرو وہ ملک کو خوشحال بنانے کا فارمولا پیش کرتا ہے اور تو اور ہم زندہ قوم بھی ہیں، ہمارا نام بھی ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے۔اس کرہ ارض پر بڑے بڑے گھر اور محلات کی ملکیت بھی ہمارے بہترین دماغ رکھنے والے افراد کے پاس ہے۔سبز ہلالی پرچم بھی بہت خوب صورت ہے اور اس کے سائے تلے ہم ایک بھی ہیں، ہماراقومی ترانہ بھی دنیا کو مات دیتا ہے۔امت مسلمہ کے کسی فرد کو کانٹا بھی چبھے تو ہم اپنی گفتار سے عالم کفر کے پرخچے اڑا دیتے ہیں،ہماری تحریروں اور تقریروں کا کہیں کوئی ثانی نہیں۔اس کے باوجود یہ کم ظرف دنیا ہمیں منہ نہیں لگاتی۔آخر کیا وجہ ہے،ہر طرح کی پریشانیوں میں ہم ہی کیوں گھرے ہوئے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہے جو سچ نام کے لفظ کے معنی سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں۔کہیں ہم وہ تو نہیں جوملاوٹ ،دغا بازی،سود خوری،دھوکہ دہی اور رشوت کے مال سے خیرات کر کے دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہونے کے خوابوں کے سوداگر ہیں۔شاید یہ میرا وہم ہو۔

یہ ملک بھی کمال قسم کی زرخیز مٹی رکھتا ہے،یہاں جس نے بھی ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا نعرہ مستانہ لگایا اس کے حالات اور مقدر دنوں میں بد ل گئے جب کہ وطن عزیز دہائیوں سے سسکیاں اور آہیں بھررہا ہے ۔جب بھی ان بڑے دماغوں سے بات کی جاتی ہے کہ وہ فارمولا قوم کو بھی بتائیں جس سے آپ نے اپنی آنے والی نسلوں تک کو ارب پتی بنا ڈالا تو نجانے کیوں یہ محب وطن آگ بگولا ہو جاتے ہیں؟ان میں سے اکثر تو اس حد تک غصے میں آجاتے ہیں کہ اگر دوبارہ ہم سے ہماری خوشحالی کی چھان بین کے لیے دست سوال دراز کیا تو ہاتھ بھی سلامت نہیں رہیں گے۔بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے دروازوں پر یہ تحریر سنہری حروف میں کنندہ ہے کہ © ”ہم کسی کو جوابدہ نہیں“۔ان حالات میں جب قوم ٹماٹر،پیاز، آٹا اور چینی ایسی بنیادی اشیاءکے حصول کے لیے بے بس دکھائی دیتی ہے تو یقینا ہماری نظریں ان لوگوں سے سوال کرتی ہیں کہ یہ بڑی گاڑیاں ،بنگلے اور جاگیریں کہاں سے آئیں؟میرے وطن کی نصف آبادی کے پاس رہنے کو ذاتی چھت میسر نہیںاور میرے وطن کے عظیم دماغ میلوں پھیلی سوسائٹیوں کے مالک بن گئے۔میرا کسان آج بھی نیا لباس فصل اٹھانے کے بعد بمشکل خرید پاتا ہے اور بیٹی کی شادی کے لیے تو نجانے کتنے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے اور وطن عزیز کے بہترین دماغوں کے لباس دیکھ کر مغل شہنشاہوں کی شان و شوکت بھی ہیچ دکھائی دیتی ہے۔

میری ریاست کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ بکری چور عمر قید کی سزا پاتا ہے جب کہ اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے دروازے پر قانون خود پہرے دار بن جاتا ہے۔ان بہترین دماغوں نے جب کسی بھی حال میں ترقی اور خوشحالی کا فارمولا قوم کی تمام قربانیوں کے باوجود اسے نہ دیا تو قوم نے2018میںنئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔اب اس نئے پاکستان کو بنے بھی چار سال ہو چکے۔حالات کچھ اس طرح کے بن چکے تعلیم ،صحت اور روزگار تو دور عوام کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ریاست پاکستان اور عوام کی حالت زار جوں کی توں رہے گی۔موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ہمیں بد حالات میں اقتدار ملا لہٰذا درست کرنے میں مزیدوقت درکار ہے ،اگر یہ مان بھی لیا جائے تو حضور بد حالات کو مزید بد تر تو مت بنائیں۔آپ توبا با رحمت مستری سے بھی زیادہ تجربہ کار ثابت ہوئے۔باتھ روم کی نل خراب ہونے پر بابے رحمت کوجب گھر میں بلایا گیا تو اس نے پورے گھر کا سیوریج سسٹم ہی اکھاڑ کے رکھ دیا،بات یہاں تک رک جاتی تو پھر بھی برداشت ہو جاتا اس کی تجویز پر گھر کے مالک اپنا مکان گرا کر دوبارہ تعمیر کے لیے غور خوض بھی کرنے لگے تب کسی نے بتایا کہ بابے رحمت کی ایمانداری اپنی جگہ مگر مزید پاگل پن کرنے سے پہلے ان کا تجربہ بھی دیکھ لیا جائے یہ نہ ہو کہ بات کہیں پورے محلے کو گرانے تک نہ پہنچ جائے۔کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو یقینا پکڑا جائے،ٹیکس نادہندگان کو کٹہرے میں لایا جائے، غرض جو بھی ملک کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے مگردال چینی اور آٹا مہنگا کر کے نہیں اور نہ ہی کاروباری سرگرمیوں کو مفلوج کر کے۔پورے ملک میں ہو کا عالم ہے،کاروباری سرگرمیاں قریباً نہ ہونے کے برابر،جس کے پاس جو جمع پونجی تھی ختم ہو چکی،اور آپ کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کے اعشاریے آسمان کو چھو رہے ہیں۔مشکل حالات میں تو ریاستیں سخت قوانین میں بھی نرمی لے آتی ہیں آپ نے تو موٹر سائیکل سوار کا چالان بھی 2000روپے کردیا۔اداروں کا کام اداروں کو کرنے دیں ،بقول آپ کے ادارے آزاد ہیں تو پھر کسی کو گرفتار کرنا یا رہا کرنا اداروں کا کام ہے آپ گورننس پر توجہ دیں ،لوگوں کو روزگار کی فراہمی یقینی بنائیں،تاجروں کو سہولت دیں تاکہ ریاست میں پیسہ گردش میں آئے۔ہو سکتا ہے آپ زنگ آلود نظام کو درست کرنے میں ایمانداری کا دامن تھامے دن رات مصروف ہو ںلیکن اس کی درستی تک نظام زندگی تو چلنے دیں۔

خطرناک بیماری میں مبتلا مریض کو جب ڈاکٹر ہر طرح کی خوراک روک دیتا ہے تب بھی اسے زندہ رکھنے کے لیے گلوکوز لگائے رکھتا ہے تاکہ علاج بھی ہو سکے اور مریض کی سانسیں بھی چلتی رہیں مگراس وقت تو عوام کو وہ گلوکوز بھی میسر نہیں۔معلوم نہیں وہ کون لوگ ہیں جو آپ کو بتا رہے ہیں کہ لنگر خانوں اور صحت کارڈ کی تقسیم سے بھوک اور صحت کے معاملات حل ہو جائیں گے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے مشیر بھی وہی ہیں جو آپ سے پہلے بہترین دماغ رکھنے والوں کے ہوا کرتے تھے۔فرق اتنا ہے کہ ذاتی ترقی کا فارمولا آپ سے پہلے والوں کے پاس تھا اور وہ ترقی کر گئے جب کہ آپ کے مشیروں کے پاس ہے اور وہ ترقی کر رہے ہیں ۔ ہر دو صورت میں عوام کو وہ فارمولا میسر نہ ہو سکا اور نہ آنے والے دنوں میں کوئی امید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button