Editorial

پاکستان سے متعلق اقوام متحدہ کا حوصلہ افزا اقتصادی سروے

پاکستان اور اس کے عوام پچھلے کچھ سال سے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ معیشت کا بٹہ بیٹھ جب کہ صنعتوں کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ مہنگائی کے بدترین طوفانوں کا قوم کو سامنا رہا۔ گرانی تین، چار گنا بڑھ گئی۔ ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلانے والا پاکستانی روپیہ اپنی وقعت کھو بیٹھا اور پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 7ماہ قبل وہ ایشیا کی تمام کرنسیوں میں سب سے زیادہ بے توقیری کا سزاوار قرار پایا تھا۔ ایک ڈالر کی قیمت 330پاکستانی روپے کے مساوی ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ صنعتوں کا پہیہ جام رہنے سے بے روزگاری کے حوالے سے ہولناک صورت حال پیدا ہوئی۔ لوگوں کے کئی عشروں سے جمے جمائے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ یوں لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب سہنا پڑا۔ اُن کی زندگیاں اجیرن ہوکر رہ گئیں۔ حالات یہ رہے کہ روزانہ ہی گرانی میں ہولناک سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی شے ہولناک حد تک مہنگی ہوتی رہی۔ پٹرول جو 5؍6سال قبل 70؍75روپے لٹر تھا۔ اُس کے نرخ 330روپے سے بھی تجاوز کر گئے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی ہوش رُبا اضافے ہوتے رہے اور ان کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچے۔ حالات خاصے گمبھیر ہوچکے تھے۔ 17ماہ قبل پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالا، جس کی سربراہی موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے ہی سپرد تھی، یہ حکومت اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کو استحکام دلانے کے لیے اقدامات میں جُت گئی۔ کچھ بڑے فیصلے کیے گئے، جو دوررس اثرات کے حامل تھے۔ بدقسمتی سے اسی دور میں ملک میں ہولناک سیلاب نے بڑی تباہ کاری مچائی۔ پونے دو ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ بے شمار مویشی مر گئے۔ تیار فصلیں سیلاب سے برباد ہوگئیں۔ اس سے ملکی معیشت کو مزید زک پہنچی۔ حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد نگراں حکومت نے بڑے اقدامات کیے۔ ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون انتہائی عظیم قدم قرار پایا، جس کے نتیجے میں ناصرف ڈالر کے نرخ گرنا شروع ہوئے بلکہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں زیادہ نہ سہی مگر کچھ کمی کی سبیل پیدا ہوئی۔ یہ کریک ڈائون چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کافی کمی ممکن ہوسکی۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستانی روپیہ اُس کے مقابل روز بروز مستحکم اور مضبوط ہورہا ہے۔ اسی طرح ملکی معیشت اور وسائل پر بوجھ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا فیصلہ بھی قابلِ توصیف قرار پاتا ہے، جس کے مثبت اثرات ظاہر ہورہے اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے مختلف جہتوں میں پیش رفت کی جارہی ہے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جانب سے آئندہ سال پاکستان میں مہنگائی میں کمی اور معاشی ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔اقوام متحدہ کے اقتصادی سروے میں پاکستان کی معاشی ترقی اور مہنگائی میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یو این اکنامک سروے میں کہا گیا کہ رواں مالی سال 2024۔25میں پاکستان کی معاشی ترقی تیز ہورہی ہے، اگلے مالی سال میں حقیقی شرح نمو میں 2فیصد سے زائد اضافہ ہوگا۔ اکنامک سروے کے مطابق مالی سال 2025میں مہنگائی کی شرح 26 سے کم ہوکر 12.2 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے معاشی ترقی، کاروبار اور شہریوں کو متاثر کیا، 2022ء کے سیلاب کی تباہی سے زرعی پیداوار اور معیشت متاثر ہوئی۔ یو این اکنامک سروے میں کہا گیا کہ 2023ء میں آئی ایم ایف سے معاہدے اور دوست ممالک کی مدد سے معیشت سنبھلنا شروع ہوئی، توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے اور مالی نظم و ضبط سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا۔ اقوام متحدہ کے اکنامک سروے میں کہا گیا کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح کم ہے، ایشیا پیسفک کے ترقی پذیر ممالک کو مناسب اور طویل المدتی وسائل کی ضرورت ہے، ترقی پذیر ممالک کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ شرح سود پر لیے گئے پچھلے قرض اُتارنے پر خرچ کریں، دوسرا انتخاب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی تعلیم، صحت اور سماجی بہتری کے لیے وسائل خرچ کریں۔اقوام متحدہ کے اقتصادی سروے آئندہ وقتوں میں پاکستان میں بہتری کے آثار کی نمایاں نشان دہی کرتے ہیں۔ گرانی غریب عوام کو لاحق سب سے بڑا مسئلہ ہے، جن کے لیے آج کے دور میں روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا خاصا مشکل ہے۔ وہ مہنگائی سے تھپیڑوں سے عاجز آچکے ہیں۔ اُن کی حقیقی اشک شوئی وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ فروری 2024کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں اب بھی مزید بڑے فیصلے کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ شعبہ زراعت میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس شعبے کو جدید زرعی تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیداوار کو حوصلہ افزا حد تک بڑھانے کے منصوبے ہیں۔ اسی طرح آئی ٹی کے شعبے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ اس حوالے سے پچھلے دنوں اسلام آباد میں سب سے بڑے آئی ٹی پارک کی تعمیر کے حوالے سے کام کا آغاز ہوا ہے۔ قطر، کویت، یو اے ای، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے۔ ان اقدامات سے بے روزگاری کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوجائے گا۔ معیشت کا پہیہ مزید تیزی سے گھومے گا۔ وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ غریب عوام کی حقیقی اشک شوئی کے بندوبست کیے جارہے ہیں۔ اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آئندہ چند سال میں پاکستان میں ترقی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔ عوام بھی اس سے پوری طرح مستفید ہوں گے۔ مہنگائی کا زور ٹوٹنے سے حالات بہتر رُخ اختیار کریں گے۔
پولیو ٹیم کے سیکیورٹی اہلکار کی شہادت
پولیو وائرس جونک کی طرح وطن عزیز سے چمٹا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے عرصۂ دراز سے کاوشیں جاری ہیں۔ پولیو مہمات کا متواتر انعقاد ہوتا رہتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ حالانکہ دُنیا کے لگ بھگ تمام ہی ممالک سے پولیو ختم ہوچکا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان میں یہ اپنا وجود رکھتا ہے۔ گو پولیو کیسز میں پچھلے برسوں میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اس کا مکمل سدباب نہیں ہوسکا ہے۔ ماضی سے لے کر اب تک یہ خاصی بڑی تعداد میں ہمارے اطفال کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کرچکا ہے۔ اُن کی معذوری ناصرف اُن کے لیے عمر بھر کا روگ ہے، اس کے ساتھ اُن کے اہل خانہ کے دُکھ کا باعث بھی ہے۔ پولیو کے سدباب کے لیے حکومتی کاوشیں ہر لحاظ سے قابلِ تحسین قرار پاتی ہیں کہ اُس کی کوشش سے ہر کچھ عرصے بعد ملک گیر پولیو مہم شروع کی جاتی ہے، تمام پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کی سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں آتی ہیں، پولیو ٹیمیں گھر گھر جاکر بچوں کو اس خوف ناک وائرس سے بچانے کے لیے کوشاں دِکھائی دیتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کافی بڑی تعداد میں بچے پولیو سے بچائو کے قطرے پینے سے رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے اور من گھڑت بیانیوں کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پولیو ویکسین سے متعلق طرح طرح کے مفروضے پیش کیے جاتے ہیں۔ ماضی تو اس حوالے سے خاصا ہولناک رہا ہے کہ جب ملک کے دوردراز علاقوں میں پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر دہشت گرد حملے ہوتے تھے۔ ماضی میں کئی پولیو ورکرز اور اُن کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکار شہید کیے گئے۔ یہ سلسلہ عرصۂ دراز پہلے تھم گیا تھا۔ پولیو ٹیموں اور اُن کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے بند ہوچکے تھے، لیکن گزشتہ روز جنوبی وزیرستان میں پولیو مانیٹرنگ ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کانسٹیبل کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیو مانیٹرنگ ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کانسٹیبل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہوگیا۔ افسوس ناک واقعہ جنوبی وزیرستان کے نواحی گائوں مانڑہ میں پیش آیا، جہاں پولیو مانیٹرنگ ٹیم پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا، فائرنگ سے پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کانسٹیبل رحیم محسود موقع پر شہید ہوگیا۔ یہ بڑا افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ شہید اہلکار کے لواحقین کے غم میں پوری قوم شریک ہے۔ یہ اور اس جیسے اقدامات پولیو کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے بھونڈے ہتھکنڈے قرار پاتے ہیں۔ بعض عناصر نہیں چاہتے کہ پاکستان پولیو سے پاک ہوجائے۔ اس لیے ایسی دہشت گرد کارروائیاں اُن کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ پولیو کو شکست دے کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان پر بیرون ملک سفر سے متعلق پابندیاں بھی عائد ہیں۔ یہ ہماری جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتا ہے۔ پولیو مانیٹرنگ ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور اہلکار کی شہادت سے مذموم عناصر کا مقصد کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور اُس کے عوام پولیو کو شکست دینے اور ملک کو اس سے پاک کرنے کا عزم مصمم رکھتے ہیں اور جلد اس حوالے سے اچھی اطلاعات سامنے آئیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button