Editorial

اعلیٰ ٹیلنٹ کو راغب کرنے کیلئے حکومتی کاوشیں

پاکستان کی آبادی 24کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ قدرت کے فضل و کرم سے ملک عزیز کی کُل آبادی کا 60فیصد حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک عزیز کی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اس سے بڑی خوش نصیبی کی بات کہ یہ تمام ہی آبادی باصلاحیت ہے۔ یہ نوجوان ستاروں پر کمند ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بس انہیں مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان کی رہنمائی کے لیے سرکاری کاوشیں ناگزیر ہیں۔ عام انتخابات 2024کے نتیجے میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو صحیح خطوط پر بروئے کار لانے کے ضمن میں خاصی سنجیدہ دِکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی اس حوالے سے تندہی کے ساتھ کوششوں میں مصروف دِکھائی دیتے ہیں۔ وہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے مشن کے ساتھ نوجوان آبادی کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں ملک و قوم کے مفاد میں بہتر بنانے کی خاطر کمربستہ ہیں۔ اسلام آباد میں سب سے بڑے آئی ٹی پارک کے حوالے سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ملک میں آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے اور اس میں مہارت کی معراج کو پانے کے لیی بھی کوششیں جاری ہیں۔ معیشت کی گاڑی کو درست پٹری پر گامزن کردیا گیا ہے۔ کچھ ہی سال میں صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ ملکی آبادی کے 60 فیصد نوجوان طبقے کو اگر صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو چند ہی برس میں ملک ترقی کی بلندیوں پر ہوگا۔ اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں گے، باصلاحیت پیشہ ور افراد اور تکنیکی ماہرین ہمارے موجودہ گورننس کے نظام میں جدت لاکر اسے مزید موثر بنائیں گے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ملک میں نئے ٹیلنٹ کے فروغ اور وفاقی وزارتوں کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہرین اور کنسلٹنٹس کی خدمات کے حصول کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو عالمی سطح کا ٹیلنٹ پول تشکیل دینا چاہیے کیونکہ یہ ایسا دور ہے جس میں کسی بھی قوم کی کامیابی میں ٹیلنٹ ہی سب سے بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی پالیسی پروگراموں پر موثر عمل درآمد کیلئے اہل اور باصلاحیت کارکنوں کی تیاری کے طریقوں اور غیر جانبداری کے اصولوں پر قائم اور میرٹ پر بھرتی کرنے کے حوالے سے اہم اجلاس کی بھی صدارت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ باصلاحیت ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور اس کے حصول پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس طرح ہمیں ملک میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور اس کے حصول پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری برادری ایسی جگہوں پر سرمایہ کاری چاہتی ہے جہاں ٹیلنٹ ہو، سیاست اور پالیسیاں مستحکم ہوں اور سسٹم کام کرے۔ وزیراعظم نے پاکستان میں ٹیلنٹ کی ضرورت کے بہتر حصول میں مدد کے لیے وزارتوں میں حالیہ فریم ورک کو بہتر بنانے اور وضع کرنے کے لیے پالیسی کی تشکیل کی خاطر وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسے اپنی تجاویز جلد از جلد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں پالیسی سازی کی سطح پر تکنیکی معاونت کی کمی کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو سول سروس میں نئی مہارتیں تیار کرنے، بڑے منصوبوں کے انتظام کو بہتر بنانے اور ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے ضروری ہے۔ اجلاس کے شرکاء نے بیرون ملک سے افراد کی تعیناتی میں ٹائم اسکیل طریقہ کار جیسی رکاوٹوں کو اجاگر کیا جس سے بہترین امیدواروں کو درست طریقہ سے تلاش نہیں کیا جاسکتا اور تنخواہوں کی ادائیگی جیسے مسائل سے بہترین ٹیلنٹ بالخصوص ایسے علاقے جہاں ہنرمند افراد کی کمی ہو، تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، بس اسے درست خطوط پر بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے۔ ہمارے ہنرمندوں کی بیرونی دُنیا میں بے پناہ مانگ ہے، جو ملک کے لیے بھاری بھر کم زرمبادلہ کے حصول کا باعث بنتے ہیں۔ نوجوان آئی ٹی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اسی طرح دیگر شعبہ جات میں بھی اُن کی نیک نامی کی دُنیا معترف ہے۔ زراعت کا شعبہ ملکی کُل مجموعی آمدن میں 20فیصد حصّہ ڈالتا ہے۔ اس شعبے کو جدید زرعی طریقوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے اور اس میں بھی نوجوان افرادی قوت بھرپور حصّہ لے رہی ہے۔ زرعی پیداوار وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ صنعتوں کو فروغ مل رہا ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ان شاء اللہ ملک و قوم کو لاحق تمام مسائل کا کچھ ہی سال میں خاتمہ ہوگا۔ معیشت کی گاڑی تیزی سے دوڑے گی اور ملک و قوم ترقی، خوش حالی کے ثمرات سے بھرپور طور پر مستفید ہوں گے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وسائل کو صحیح معنوں میں بروئے کار لانے کی جانب سنجیدگی سے سوچا جائے اور مسائل کے حل میں قرضوں کے بجائے انہی وسائل پر انحصار کی روش اختیار کی جائے۔ یقیناً آنے والا وقت ملک اور قوم کے لیے بہتر ثابت ہوگا اور تمام مصائب ختم ہوجائیں گے۔
گداگروں کی تعداد میں ہولناک اضافہ
پاکستان کے لگ بھگ تمام بڑے شہروں کو غریب پرور گردانا جاتا ہے۔ دُوردراز کے علاقوں میں بسنے والے لوگ جہاں کا رُخ کرتے اور محنت مزدوری کرکے باعزت روزگار کماتے ہیں۔ یہ محنت کش ہر لحاظ سے قابلِ تعریف و توصیف ہیں۔ ان کے برعکس وہ لوگ ملک اور قوم پر بدترین بوجھ ہیں جو بھیک مانگنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کرتے اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ بہت ہی بڑی تعداد میں گداگر ماہِ رمضان میں دُور دراز علاقوں سے بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں، وہیں ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے ڈیرا ڈالتے ہیں اور تمام سڑکوں، چوراہوں، بازاروں، تفریح گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر خاصی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ بھکاریوں کی تعداد میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ چار کروڑ کی تعداد کو کچھ ہی عرصے میں عبور کر لیں گے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاریوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 24کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاری ہیں، جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور، 7فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ کراچی میں روزانہ اوسط بھکاری کو یومیہ بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400اور اسلام آباد میں 950روپے ملتی ہے۔ پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850روپے ہے۔ روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ سالانہ یہ رقم 117کھرب روپے بنتی ہے، ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے۔ بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھاکر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21فیصد مہنگائی کی صورت بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لیے 3کروڑ80لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی جب کہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدن 38ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ملک کو مکمل اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نصف بھکاری تو محض کراچی میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے تو کسی بازار، تفریح گاہ، شاپنگ مال وغیرہ چلے جائیں تو بھکاریوں کی ٹولی سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ عناصر ملک و قوم پر بدترین بوجھ ہیں۔ دین میں بھی بھیک مانگنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ معاشرے میں بھی بھیک مانگنا ناپسندیدہ ترین پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سے وابستہ لوگوں کو اس سے تائب ہونا چاہیے اور محنت کرکے باعزت روزگار کمانے کے لیے عملی قدم اُٹھانے چاہئیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو بھی گداگری کے تدارک میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button