Editorial

ایک بار پھر بجلی مہنگی

ماہِ اپریل کا آغاز ہوتے ہی غریب عوام کی مشکلات میں ہولناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے پٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لٹر اضافہ دیکھنے میں آیا اور اگلے ہی روز بجلی کے فی یونٹ نرخ بھی 2.75روپے بڑھا دئیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی 2روپے 75پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نیپرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق صارفین سے اضافی وصولیاں اپریل، مئی اور جون میں کی جائیں گی۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہوگا۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کا صارفین پر 85ارب 20کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی قیمت میں حالیہ اضافہ عوام کے حق میں ہرگز مناسب فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بجلی قیمت میں یہ نیا اضافہ یقیناً غریب صارفین کے لیے سوہانِ روح ہے۔ وہ پہلے ہی بہ مشکل بجلی بل کی ادائیگی کرپارہے تھے، اس کے لیے انہیں کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے۔ اب مزید بھاری بھر کم بار اُن پر ایک دم آن پڑا ہے۔ ضروری ہے کہ وسیع تر عوامی مفاد میں بجلی کی قیمت بڑھانے سے گریز کی روش اختیار کی جائے اور سستی بجلی کی پیداوار کے لیے سنجیدگی سے ناصرف سوچا جائے بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی یقینی بنائے جائیں۔ بجلی گراں کرنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا، یہ سراسر عوام کے مصائب بڑھنے کی وجہ بنتا ہے۔ پہلے ہی غریب عوام پچھلے 5، 6سال سے بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں۔ گرانی تین چار گنا بڑھ چکی ہے۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات) بھی تین گنا مہنگی ہوچکی ہیں۔ غریبوں کی آمدن وہی ہے، لیکن اُن کے اخراجات تین، چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ اُنہیں روح اور جسم کے رشتے کو اُستوار رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اوپر سے اشیاء ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اُن کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہم وہ قوم ہیں، جس نے سالہا سال تک بجلی کے بدترین بحران کا سامنا کیا ہے۔ معیشت کو اس باعث ناقابل تلافی نقصانات بھگتنے پڑے۔ قوم پر ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ بجلی موجود کم ہوتی تھی اور غائب زیادہ رہتی تھی۔ بدترین لوڈشیڈنگ کے طویل سلسلے تھے۔ عوام سراپا احتجاج نظر آتے تھے۔ سابق ادوار میں بجلی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بازگشت سنائی دی۔ بجلی غائب رہنے کے دورانیوں میں کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران حکومتی سطح پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تو بڑے طمطراق سے کیے گئے مگر سستی بجلی کی پیداوار کے بارے میں زبانیں خاموش رہیں۔ قوم پر مہنگی بجلی کا بم ہر کچھ عرصے بعد برسایا جاتا رہا اور اب عالم یہ ہوگیا کہ وطن عزیز میں خطے میں سب سے زیادہ گراں بجلی استعمال کی جارہی ہے۔ غریب عوام کی آمدن سے زائد بجلی بل اُنہیں موصول ہوتے ہیں۔ دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے بجلی کے ماہانہ بل موصول ہونے کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ دوسری جانب چین، ایران، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ میں بجلی انتہائی سستی ہے اور ان ملکوں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے محض اپنی آمدن کا معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز میں تو بجلی بل کی ادائیگی کے لیے جمع پونجی ختم ہوجاتی ہے اور زیورات تک بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ مہنگی بجلی کے حوالے سے صورت حال یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہر کچھ عرصے بعد بجلی کی قیمت میں اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ بدترین مہنگائی کے اس دور میں غریبوں کے لیے زندگی پہلے ہی کٹھن ہے۔ اُنہیں اپنے گھروں کا معاشی نظام چلانے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اُن کی مشکلات میں اضافے کی وجہ نہیں بنتے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے کچھ تو کیا جائے۔ سابق حکومتیں تو اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر رہیں، اب تو اس حوالے سے قدم بڑھالیے جائیں۔ اس معاملے میں تاخیر کی ہرگز گنجائش نہیں، جوں جوں اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہے گا، مسئلہ اور سنگین ہوتا چلا جائے گا اور بجلی کی پیداوار بھی مزید گراں ہوتی رہے گی۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑائی جائے اور ملک میں استعمال ہونے والی تمام تر بجلی سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) سے حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے عملی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ منصوبے بنائے جائیں اور اُنہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز بنائے جائیں۔ ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس سے ناصرف ملک بھر میں لاحق آبی قلت کا سنگین مسئلہ حل ہوسکے گا، بلکہ پانی کے ذریعے وافر اور سستی بجلی کی پیداوار بھی ممکن ہوسکے گی۔ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے منصوبے لگائے جائیں۔ یہ تمام منصوبے انسان دوست ماحول کے حامل ہیں۔ سستے ذرائع سے ہم ناصرف ملکی ضروریات کے مطابق بجلی کشید کر سکتے ہیں بلکہ اسے بیرونِ ملک فروخت کرکے معقول ملکی آمدن بڑھا سکتے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں نیک نیتی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں۔ ملک اور قوم کے مفاد کو اوّلیت دی جائے۔ اس حوالے سے تاخیر کی اب چنداں گنجائش نہیں۔ پہلے ہی قوم مہنگی بجلی استعمال کرتے کرتے خاصی تنگ اور اذیت کا شکار ہے۔ اُن کی حقیقی اشک شوئی اُسی وقت ہوسکے گی جب اُنہیں سستی اور وافر بجلی میسر ہوگی اور اس سہولت کے بدلے انہیں اپنی آمدن کا معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑے گا۔
قومی ایئر لائن پر قرضوں کا بڑا بار
ہمارے اکثر سرکاری ادارے ناصرف مسلسل گھاٹے میں چل رہے ہیں، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن پر قرضوں کا ہولناک بوجھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان میں عرصہ دراز سے جاری بدعنوانی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اوپر کی سطح سے لے کر نیچے تک بدترین کرپشن کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ بدعنوانی ہی ہے جو بعض ملکی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہے۔ حالانکہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اکثر ادارے ناصرف منافع بخش تھے بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنا حصّہ ڈالتے تھے۔ اُس دور میں پی آئی اے کی تو پوری دُنیا میں تعریف و توصیف کی نظیریں جابجا دِکھائی دیتی تھیں۔ قومی ایئرلائن کی حیرت انگیز ترقی پر پوری دُنیا انگشت بدنداں تھی۔ آج جو دُنیا کی کچھ بڑی ایئرلائنز ہیں، جن کی سروسز کو معیاری اور مثالی قرار دیا جاتا ہے، ان کی آبیاری پی آئی اے میں ہی کی گئی ہے۔ ان کے عملے وغیرہ کی ٹریننگ اُس زمانے میں قومی ایئرلائن کے تحت ہی ہوتی تھی۔ آج یہ ایئر لائنز عالمی سطح پر اپنا لوہا منوارہی ہیں جب کہ ان کو پیروں پر کھڑا کرنے والے ادارے کی حالتِ زار انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اس ادارے کی نجکاری کے حوالے سے اطلاعات متواتر سامنے آرہی ہیں۔ قومی ایئرلائن مسلسل خسارے میں چل رہی ہے۔ اس کا نظام چلانے کے لیے ہر سال قومی خزانے پر بھاری بھر کم بوجھ پڑتا ہے۔ پی آئی اے پر قرضوں کا ہوش رُبا بار ہے۔ اس حوالے سے وزیر ہوا بازی نے بڑا انکشاف کیا ہے۔پی آئی اے کا ادارہ 429.2 ارب روپے کا مقروض نکلا۔ وزیر ہوا بازی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قومی ایئرلائن 429.2 ارب روپے کی مقروض ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس کے وقفہ سوالات میں پی آئی اے کے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا معاملہ زیرِ بحث آیا، جس میں وزیر ہوا بازی خواجہ محمد آصف نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 30 ستمبر 2023 تک پی آئی اے پر 429.2 ارب روپے کی رقم واجب الادا تھی، اس میں بینکوں کے 268.2 ارب روپے کے قرضے شامل ہیں جب کہ حکومت پاکستان کا 161.067 ارب روپے کا قرضہ شامل ہے۔ خواجہ آصف نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے مالی مشکلات کے حل اور مزید ہوائی جہاز شامل کرنے کے لیے قرضے حاصل کیے، انجنوں کا بندوبست کرنے اور فاضل پُرزہ جات خریدنے کے لیے بھی قرضے حاصل کیے گئے، وزیر ہوا بازی نے بتایا کہ فی الحال کسی بھی ہوائی اڈے کو جزوی یا مکمل طور پر کسی غیر ملکی ادارے کو آئوٹ سورس نہیں کیا گیا، حکومت پہلے مرحلے میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو آئوٹ سورس کرنے کی کاوشیں کررہی ہے۔ پی آئی اے پر اتنے زائد قرضے یقیناً ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ اصلاحات اور بدعنوانی کے مکمل قلع قمع سے ہی ان اداروں کی بہتری ممکن ہے۔ حکومت کو ان کو نفع بخش اور مثالی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button