CM RizwanColumn

جمہوریت کے ساتھ شرم بھی ضروری

سی ایم رضوان
نظام کوئی بھی برا نہیں ہوتا۔ نظام کو چلانے والے لوگ برے ہوتے ہیں۔ آج دنیا اس امر پر متفق ہے کہ آمریت، صدارتی نظام اور اشتراکیت وغیرہ کے مقابلے میں جمہوریت کسی بھی ملک کے لئے ایک بہترین نظام حکومت ہے لیکن اگر جمہوری نظام حکومت بھی عوام کو بھوک، افلاس اور عدم تحفظ جیسی بلائوں سے ہی پریشان کرتا رہے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نظام کو چلانے والے ہی بدصفت اور بے شرم ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے الیکشن کمپین میں حکومت میں آ کر عوام کی سہولت اور خوشحالی دینے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دینے کے دعویدار خواجہ محمد آصف نے وزیر دفاع بننے کے چند ہفتے بعد ہی یہ کہہ دیا ہے کہ لوگ ٹیکس دینے کی بجائے عدالت چلے جاتے ہیں۔ ملک میں بڑا طبقہ ٹیکس نہیں دیتا۔ ٹیکس صرف تنخواہ دار دیتے ہیں۔ مسائل اور اپنے حکومتی فرائض سے سرمو چشم پوشی کرتے ہوئے موصوف نے یہ نوید بھی سنا دی کہ اس صورتحال میں عوام کو فوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا، فوری ریلیف دینے کے سابقہ دعوئوں سے انحراف کرتے ہوئے یہ لالی پاپ بھی دے دیا کہ آنے والے ڈیڑھ دو سال میں معیشت بحال ہوگی اور تب عوام کو ریلیف ملے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تقریباً 26سو ارب روپے کے ٹیکس کیسز عدالتوں میں ہیں۔ انکم ٹیکس کے اربوں روپے کے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں، ان میں سے آدھے ہی ریکور ہو جائیں تو ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی لیکن شاید کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ اگر آپ حکومت میں ہوتے ہوئے ان قباحتوں کو سدھارنے کے لئے اقدام نہیں کر سکتے تو حکومت میں کیا بینڈ باجا بجانے کے لئے بیٹھے ہوئے ہو۔ ملک میں جاری عدلیہ اور انتظامیہ جنگ کو ہوا دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ٹیکس کیسز کے بارے میں کیا عدلیہ نے سوچا ہے کہ ان کیسز کے فیصلے بھی کیے جائیں۔ القصہ پاکستان میں ہر مسئلہ کی ذمہ داری اپنے طور پر عدلیہ پر ڈالتے ہوئے خواجہ آصف نے اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو کر لی مگر جو عوام کی مہنگائی کی وجہ سے جان جوکھوں میں پڑی ہوئی ہے اس پر دو سال کا وقت دے دیا ہے اور وہ بھی اس روز جب کہ فی لٹر پٹرول کی قیمت میں ان کی حکومت نے دس روپے مزید اضافہ کرتے ہوئے مرے کو مارے شاہ مدار جیسی کہاوت کو زندہ کر دکھایا ہے اور بجلی کے نرخ بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیئے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بھی لکھا گیا ہے کہ جمہوریت ایک بہترین نظام ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے لیکن پاکستان میں اس نظام کے تحت جو پارٹی یا پارٹیاں حکومت میں آتی ہیں، وہ یہی کوشش کرتی ہیں کہ جیسے تیسے اپنے پانچ سال نکال لیں اور اپنے ذاتی اور گروہی مفادات حاصل کر لیں اور آنے والی حکومت کے لئے ایسے مسائل چھوڑ جائیں کہ وہ باوجود سرتوڑ کوششوں کے ملک کی معیشت کو سنبھالا نہ دے سکے۔ اس کھیل میں اب عوام کا کباڑا ہو چکا ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتیں یہی راگ الاپ رہی ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت بہترین نظام ہے حالانکہ ان کو اور ان کے پالیسی سازوں کو شاید علم ہی نہیں جمہوریت کیا بلا ہے۔ پھر یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے یہ بھی سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ یہ بھی سراسر دھوکہ ہے کہ ہم جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔ حالانکہ یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کو مسلسل محکوم رکھنے کا ایک حربہ ہے، کیا وہ ملک جمہوری ملک کہلوا سکتا ہے جہاں آئے روز مقتولین کے ورثاء انصاف کے لئے ملک کی عدالتوں میں، ملک کی شاہراہوں پر، ملزموں کو سزائیں دلوانے کے لئے جلوس نکالیں اور ان کی شنوائی تک نہ ہو۔ کیا یہاں یہی جمہوریت کافی ہے جو صرف حکمران طبقات کے گھر کی لونڈی ہو اور ان کے لئے عیش و عشرت کا تمام تر سامان مہیا کرتی رہے حالانکہ اصل جمہوریت تو ملک میں رہنے والے تمام طبقات کے حقوق کے لئے بندوبست کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ آئین اور اخلاق میں رہتے ہوئے آزادی سب کے لئے، بنیادی ضروریات سب کے لئے علاج و معالجہ، تعلیم و صحت کی سہولتیں سب کے لئے ہوتی ہیں، جس میں عوام اور حکمران ایک صف میں کھڑے ہوں کیونکہ انسان تو سب ہیں، پاکستان جیسے معدنیات کے خزانوں سے بھرے ہوئے خوبصورت، سرسبز اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں عوام بغیر غذا کے مرجائیں، بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے سے مر جائیں، ہسپتالوں اور اسمبلیوں میں چوہوں کا راج ہو۔ ملک کے کئی حصوں میں انسان جانوروں کے ساتھ پانی پینے پر مجبور ہوں۔ اکثریتی عوام جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں اور یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہو اور ساتھ ساتھ جمہوریت بھی چلتی رہے۔ ملک میں رائج اس نظام جس کے تحت بڑے بڑے سرکاری ایوانوں میں اشرافیہ، امراء اور حکومتی ارکان لاکھوں روپے روزانہ کے اخراجات سے ظہرانوں اور عشائیوں سے لطف اندوز ہوں اور عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے پھرتے ہوں۔ یہ کیسی حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی والی جمہوریت ہے جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو اور ایک صوبہ کے لوگ حکومت کی طرف سے امداد کے طور پر تقسیم کی جانے والی نگہبان سکیم کے ایک ایک تھیلے کو ترس جائیں اور حکومت صرف فوٹو سیشن اور زبانی کلامی دعوئوں سے آگے نہ بڑھے۔
وطن عزیز میں 1947ء سے 2024ء تک متعدد جمہوری حکومتیں نظر آتی ہیں اور ان کے کئی فلاحی کام بھی نظر آتے ہیں لیکن جو مجموعی تاثر نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک عوام کو ان کے حقوق کو، ان کی جمہوری آزادی کو ہمیشہ کچلا ہی گیا ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قانون کار فرما رہا ہے کہ جو آواز اٹھائے اس کو مٹا دو، جو شعور کی بات کرے، اس کو پاگل بنا دو۔ یہاں یاد رہے کہ آواز اٹھانے والوں سے مراد سانحہ نو مئی کے مرتکب وہ تخریب کار نہیں جو ملک کو جمہوریت کے نام پر ایک ایسے فتنے سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں جو اس سے پہلے اس ملک میں نہیں دیکھا گیا یعنی اب جمہوریت کے نام پر مکمل تباہی کا ایک تبدیل شدہ بندوبست کر دیا گیا ہے اور ستم تو یہ کہ لوگ دیوانہ وار اس دھوکہ کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک اس طرح کی جمہوریت رہے گی اور ہم کب حقیقی جمہوریت میں داخل ہوں گے؟ اس حقیقت کے باوجود کہ کوئی معاشرہ قانون کے بغیر نہیں چلتا۔ کوئی بھی ملک اگر قانون کے تحت چلے تو توازن قائم رہے گا مگر بد قسمتی سے یہاں آئے روز کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے، کوئی نہ کوئی ایسا بحران سر ابھار لیتا ہے کہ ہر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں؟ خود غرضی، انا پرستی، لالچ، ہوس نے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو اندھا کر دیا ہے۔ کسی کی عزت، کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔ اب ترقی یافتہ دور میں جب ہمارے ہمسایہ ممالک ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں مگر ہم صرف ان کی ترقی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ اب تو یہ ظلم بھی جاری ہے کہ پاکستان کا بی شمار پڑھا لکھا طبقہ پاکستان سے باہر جا کر کام کر رہا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں تمام لوگوں کو یکساں حقوق نہیں مل رہے۔ ظلم اور زیادتی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ عام طبقات کے سسکتے اور بھوک سے روتے ہوئے بچے، مجبور خواتین اور بے بس بزرگ کیا یہی تحفہ ہے جمہوریت کا۔ کس طرح کے حکمران اور کس طرح کی طرز حکمرانی ہے یہ۔
ہم نے فرعون کا زمانہ نہیں دیکھا، ہم نے چنگیز خان کا زمانہ نہیں دیکھا، مگر ہم جو تاریخ پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ دور پاکستان کے موجودہ زمانے سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے ہم خوش نصیب قوم ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہمارے بزرگوں نے ایک عظیم جدوجہد کے بعد ایک آزاد ملک اس لئے نہیں بنایا کہ اس میں فرعونیت کو پروان چڑھایا جائے، حقوق غصب کئے جائیں، لوگ بے گناہ مارے جائیں، بلکہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ تمام شہری آئین اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت کا ایک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ پارٹی کی بنا پر یا پھر دولت یا کسی اور بنا پر، جس کو تجربہ ہی نہ ہو، جس کو معلومات ہی نہ ہوں، جو عوام کی خدمت اور غریبوں کے احساس سے نابلد ہو وہ بھلا جمہوری نظام حکومت میں کوئی بڑا عہدہ کیسے نبھا سکے گا؟ ہاں اپنے لئے اور اپنے لوگوں کے لئے اس عہدے سے ضرور بہت کچھ حاصل کر لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کی ملکی تاریخ میں اسی طرح کے نااہل اور خود غرض لوگوں نے ان عہدوں سی اپنے آپ کو، اپنے لوگوں کو، اپنی پارٹیوں کو تو مضبوط کیا مگر عوام کو حقوق دینے کی بجائے ان کو محکوم بنا کر ان پر حکمرانی کی۔ جمہوریت کے ساتھ ساتھ اگر ان کو کچھ شرم ہو تو شاید یہ ملک سنور جائے لیکن اب تو یہ امید بھی دم توڑ رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button